بہادر شاہ ظفر نے اپنی کیفیت ِ یاس بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی
شعوری نظر سے دیکھا جائے تو آج بھی امت ِ مسلمہ کی مجموعی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ حقیقی اعداد وشمار تو میسر نہیں ہیں، لیکن موجودہ دور میں عالمی سطح پر مسلمان عالمی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں۔ ستاون مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے بھی یہ امت بے توقیر ہے اور عالمی سطح پر اسے کوئی مقامِ افتخار حاصل نہیں ہے۔ عالمی پالیسیاں بنانے اور بدلنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے، اقوامِ متحدہ میں بے اثر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی تو محض ایک مجلس ِ مباحثہ ہے، اس کی قراردادوں اور فیصلوں کے نفاذ کا کوئی مؤثر طریقۂ کار موجود نہیں ہے۔ کسی حد تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اہمیت ہے، لیکن اس کے پانچ مستقل ارکان کو حق ِ تنسیخ حاصل ہونے کے سبب یہ ادارہ اب عالمی امن وسلامتی کے تحفظ میں ناکام ہے۔ بین الاقوامی تنازعات کا کوئی دیرپا اور مستقل حل پیش کرنے کے حوالے سے اس کی تاریخ ناکامیوں سے عبارت ہے۔ ہم نے ریاض میں منعقدہ عرب اسلامک سربراہ کانفرنس کی تقاریر کے اقتباسات سنے ہیں۔ یہ حکمران خود کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، بس عالمی برادری سے مطالبات کر رہے ہیں۔
مغرب ہمیں سبق دیتا ہے کہ جمہوریت کو عقیدے کا درجہ دیا جائے۔ اسے دیوی کی طرح پوجا جائے، لیکن سلامتی کونسل کی دستوری ساخت جمہوریت کی نفی کرتی ہے اور اسی سبب اقوامِ متحدہ عملاً مفلوج ہے۔ امریکا جب چاہے۔ اس سے اپنے حق میں فیصلے کروالیتا ہے۔ امریکا اور مغرب نے دہشت گردی۔ انتہا پسندی اور عسکریت کے سیاسی فتووں کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ آج تک دہشت گردی کی کوئی متفقہ اور جامع تعریف پیش کرنے میں ناکام ہے۔ اہل ِ مغرب کے نزدیک جنگلی حیات، حیوانات، خواتین اور اطفال کے حقوق حتیٰ کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھی حقوق کی ضمانت موجود ہے، لیکن غزہ کے لاکھوں مظلوم شہداء اور زخمیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ ان کی جان ومال اور آبرو کی ان عالمی درندوں کے نزدیک کوئی حرمت نہیں ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی مظلوم لاشوں کو دیکھ کر کبھی ان کا دل پسیجا اور نہ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے۔ ان کے دل میں رحم کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ان دلخراش مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کے دلوں کی سنگینی اور شقاوت میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن فلسطین کے اصل باشندوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایسٹ تیمور اور سوڈان میں دارفور کے مسیحیوں کو تو حُرِیت ِ وطن کا حق حاصل تھا، مگر فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ وہی مسلّمہ حقوق جو اسرائیل کے حق میں استعمال کیے جاتے ہیں، انھی کو فلسطین کے مظلوموں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
امت ِ مسلمہ کی بے توقیری تعداد کی قلّت اور وسائل کی کمی کے سبب نہیں ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے، آپؐ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تم بڑی تعداد میں ہوگے۔ لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند بے اثر ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں’’وَھن‘‘ ڈال دے گا، کسی نے کہا: یارسول اللہ! وَھن کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا ڈر‘‘۔ ( ابودائود)
صہیونی ریاست غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے، شہداء اور زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ شہری ڈھانچہ تباہ وبرباد کردیا گیا ہے۔ اسرائیل کسی صورت بھی غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ کے مقبوضہ علاقوں سے انخلا پر رضامند نہیں ہے، امریکا اس کا پشت پناہ ہے۔ امریکی کانگریس نے ساٹھ ارب ڈالر کی امداد منظور کی ہے، اسے جدید ترین اسلحہ اور اعلیٰ ٹیکنالوجی فراہم کی جارہی ہے۔ جو مسلم ممالک میں سے کسی کو بھی دستیاب نہیں ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے امریکا اس کی فوری مدد کو ہر وقت تیار ہے۔ امریکا کا جدید ترین آلات سے لیس طیارہ بردار بحری بیڑا اسرائیل کے دفاع کے لیے ہر وقت سمندر میں تیار حالت میں موجود رہتا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کے پاس مخالفین کے داغے ہوئے تیز ترین راکٹوں کو فضا میں تحلیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اس کا مظاہرہ بھی کیا جارہا ہے، خطے کے کسی اور ملک کے پاس ایسا جدید ترین نظام تاحال موجود نہیں ہے۔ ان کے پاس کم فاصلے کے راکٹوں اور توپوں سے داغے گئے شیلوں کو بے اثر کرنے کے لیے جدید ترین ’’آئرن ڈوم‘‘ دفاعی نظام بھی موجود ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود حماس اور حزب اللہ کے داغے گئے راکٹوں کے چند فی صد کا بھی نشانے پر گرنا غیر معمولی بات ہے۔ یہ ان کے جذبہ ٔ جہاد۔ قوتِ ایمانی اور عزیمت کی روشن دلیل ہے۔ اسرائیل کے حماس کو کم ترین عرصے میں نیست ونابود کرنے کے دعوے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ وہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں میدانِ عمل میں موجود ہیں، اسے ہم ان کی قوتِ ایمانی اور غیبی امداد سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
فلسطینیوں کی حمایت میں جنگ میں عملاً شریک ہونا۔ جدید ترین حربی آلات کے ذریعے اُن کی مدد کرنا تو درکنار، کم از کم انسانی بنیادوں پر خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرنا۔ بے گھر افراد کو سائبان اور عارضی رہائش گاہیں فراہم کرنا، تمام تر طبی آلات۔ لیبارٹری، ایکسرے مشینوں۔ میڈیکل وپیرا میڈیکل اسٹاف سمیت گشتی اسپتال اور آپریشن تھیٹر بھی فراہم نہیں کیے جاسکے۔ ستم رسیدہ فلسطینیوں کے حق میں ہماری طرف سے نعرے ہیں، نغمے ہیں، ریلیاں ہیں اور بڑے بڑے احتجاجی جلسے ہیں، لیکن عملی نصرت کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ مسلم ممالک کی ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی بھی ہے۔ پاکستان سے متصل ایران و افغان سرحدوں پر بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، ہمارے جاسوسی اداروں اور مسلّح افواج کا کہنا ہے کہ افغانستان اور ایران سے پاکستان میں در اندازی ہورہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایران و افغانستان میں جاسوسی کا ایک پورا جال بچھا رکھا ہے، وہ پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے اور ہم بدقسمتی سے داخلی عدمِ استحکام کا شکار ہیں۔ چینی انجینئروں پرکامیاب دہشت گرد حملے ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی کو ظاہر کر رہے ہیں، متعلقہ اداروں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے دینی طبقات کے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی اور ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ انتہائی تکلیف دہ اور روحانی اذیت کا باعث ہے۔ ہم دل وجان سے امارتِ اسلامیہ افغانستان کی کامیابی کے خواہاں تھے اور امید رکھتے تھے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اب دوریاں ختم ہوجائیں گی۔ ماضی کی تاریخ قصہ ٔ پارینہ بن جائے گی۔ افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان ایک دوستانہ اور پرامن شاہراہ بنے گا۔ عالمی تجارت کو ایک نئی محفوظ تجارتی راہداری ملے گی۔ جو سب کی معیشت میں ترقی اور فروغ کا باعث ہوگی۔ پاکستان سے لے کر وسطی ایشیائی ممالک ایک مشترکہ تجارتی منڈی اور اقتصادی خطہ بن جائیں گے۔ ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ جدید ترین سائنسی۔ فنی اور طبی علوم کے فروغ اور تحقیقات وایجادات میں ایک دوسرے کے معاون بنیں گے، عالَمِ اسلام کو نَشاۃ ثانیہ کا موقع ملے گا، لیکن سب امیدیں خاک میں مل گئیں۔
اب بھی سب کچھ ہاتھ سے نہیں گیا، سب کی فراست۔ دور اندیشی اور مدبّرانہ صلاحیت کا امتحان ہے کہ نا امیدی کی ظلمتوں میں امید کی کرن روشن کریں اور بے اعتمادی کو باہمی اعتماد میں بدلیں۔ وقتی مفادات کو پس ِ پشت ڈال کر امت کے دیرپا مفاد کو ترجیح دیں، علامہ اقبال اور امت کے اجتماعی خواب کو تعبیر ملنی چاہیے۔ ہمارے فقہی، علمی، تحقیقی، طبّی، سائنسی اور فلکیاتی علمی ورثے میں وسطی ایشیائی خطے کا بڑا حصہ ہے۔ یہ وقت غیظ وغضب اور جذبہ ٔ انتقام کو ابھارنے اور جلتی ہوئی آگ پر پٹرول چھڑکنے کا نہیں ہے، بلکہ نفرت کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے اور بجھانے کا وقت ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ مستقبل کے بطن میں امت کے لیے خیر کا کوئی سامان پوشیدہ ہو، علامہ اقبال نے کہا تھا:تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری ؍ مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے!