سود سے پاک تجارت اسلامی بینکاری وقت کی ضرورت ہے ،سلیم میمن

65
مفتی نعمان شرعی اسکالر بینک اسلامی بینک، اسٹیٹ بینک حیدرآباد کے ڈپٹی چیف منیجر محمد اظہار، ڈپٹی ڈائریکٹر عادل ظہوراور صدر اسمال ٹریڈر ز حیدرآباد سلیم میمن سیمینار سے خطاب کررہے ہیں

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے کہا ہے کہ بحیثیت مسلمان سود سے پاک تجارت کرنا ہم سب کا فرض ہے اور اِس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری آج کے دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کا مقصد کاروباری و مالیاتی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ہمارے دین اور شریعت کے مطابق مالیاتی اَمور کو چلانا ہے۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان حیدرآباد کی جانب سے اسلامک بینکنگ پر منعقدہ سیمینار سے استقبالیہ خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بینکاری پاکستانی تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے بے حد مفید ثابت ہو سکتی ہے یہ نظام سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر سودی مالیاتی خدمات فراہم کرتا ہے جس سے تجارت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہمارے تاجر اور صنعتکار حضرات حلال طریقوں سے اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھا سکتے ہیں۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ اسٹیٹ بینک نے نہ صرف قوانین اور ضوابط وضع کئے ہیں بلکہ اسلامی بینکاری کے نظام کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر شرعی اسکالر، بینک اسلامی پاکستان لمیٹڈ مفتی نعمان نے کہا کہ معاشی اعتبار سے مضبوط مسلمان ہی ایک مضبوط اسلامی معاشرے کو تشکیل دے سکتا ہے۔ تجارت ایک عبادت ہے اگر وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کی جائے، اللہ نے صادق اور ایماندار تاجر کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت سود سے پاک، شفاف لین دین اور جوئے سے پاک ہونی چاہیے جبکہ روایتی بینکنگ کا نظام ہی قرض کے اصولوں پر چلتا ہے، اِس لیے اسلامی بینکنگ کو ہمارے معاشرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وفاقی شرعی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دسمبر 2027 تک تمام کمرشل بینکوں کو اسلامی بینکنگ سسٹم میں تبدیل ہونا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بینکنگ کا تصور ثابت ہوتا ہے اور پاکستان میں بینکنگ سیکٹر تیزی سے اسلامی بینکنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان انقلابی اِقدامات اُٹھا رہا ہے اور اس سال بھی اسٹیٹ بینک کے پاس 1000 سے زائدبینکوں کی برانچز کی اسلامی بینکنگ سسٹم میں تبدیل ہونے کی درخواستیں موجود ہیں۔ اسلامک بینک نفع اور نقصان کی شراکت کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ اِس میں اگر کاروباری شخص کو نقصان ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بینک فنانس کے مختلف طریقوں یعنی اس میں مرابحہ، سلماور استثناء کے معاہدوں کے تحت فنڈز کی تقسیم کے وقت اشیاء اور خدمات کے تبادلے کے حوالے سے معاہدے کی تکمیل لازمی عمل ہے۔ مضاربہ اور مشارکہ کے استعمال کی بنیاد پر اُن کے نقصانات میں حصہ دار ہوتا ہے۔ اِس موقع پر نائب صدر شان سہگل نے کہا کہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی جانب سے بہت اسکیمیں ایس ایم ایز کی فلاح وبہبود کے لیے لائونچ کی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر بینکوں کے اسٹاف کو اُن اسکیموں کی تفصیل کا ہی پتا نہیں ہوتا جس سے تاجروں اور عوام تک وہ معلومات پہنچتی ہی نہیں ہیں۔ اِس کے علاوہ اسٹیٹ بینک جو بھی پالیسی بناتا ہے اُس سے سب سے زیادہ متاثر تاجر برادری ہوتی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تاجروں کی نمائندگی بھی موجود ہو تاکہ وہ بھی تمام پالیسیوں پر اپنی سفارشات دیں سکیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ملک میں اسلامی بینکنگ کی آگاہی کے لیے تمام آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس موقع پر ڈپٹی ڈائریکٹر ایس بی پی عادل ظہور نے چیمبر کی جانب سے دی گئی تمام سفارشات کو نہایت اہمیت کی حامل قرار دیا اور کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میںایک باعزت ادارہ مانا جاتا ہے اور اپنے انقلابی اقدامات سے اسلامی بینکنگ کے فروغ کے لیے دن رات کام کر رہا ہے اسلامی بینکنگ کا نظریہ جو اسلامی نظریاتی کونسل نے 1981 میں پیش کیا تھا وہ تمام اسلامی ممالک نے ہم سے لے کر لاگو کر دیا ہے لیکن پاکستان اَب بھی اس پر کام کر رہا ہے۔