باب توبہ

144

ایک رات مالک بن دینارؒ کے گھر میں چور گھس آیا۔ اس نے وہاں کچھ نہیں پایا، بوسیدہ سی چٹائی اور پرانے سے لوٹے کے سوا وہاں کچھ نہ تھا، وہ نکلنے لگا تو مالکؒ نے آواز دی اور سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا، مالکؒ نے کہا: تمھیں یہاں دنیا تو ملی نہیں، تو کیا آخرت کا کچھ سامان پسند کروگے، اس کے دل میں بات اتر گئی، اور اس نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا، لوٹے میں پانی ہے وضو کرو، دو رکعت نماز پڑھو اور اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرو۔ دو رکعت کے بعد اس نے رات بھر عبادت کرنے کی اجازت مانگی، اور پھر یہ ہوا کہ دونوں نے رات بھر ایک ساتھ تہجد پڑھی، صبح مالکؒ مسجد کے لیے نکلے تو وہ بھی ساتھ تھا، ان کے شاگردوں نے پوچھا یہ کون ہے آپ کے ساتھ؟ انھوں نے کہا: یہ ہمیں چرانے آیا تھا ہم نے اسے ہی چرا لیا۔ (یہ قصہ امام ذہبی اور دیگر شخصیت نگاروں نے ذکر کیا ہے)
اصلاح کا مشن پارساؤں کو جمع کرلینے کا کام نہیں، بلکہ گناہ گاروں کو توبہ کے راستے اپنا بنالینے کا کام ہے۔

اگر آپ اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہوگئے ہیں، تو جان لیں کہ سب سے پہلے آپ کو توبہ کے طہارت بخش چشمے میں نہانا ہے، اور پھر آخر دم تک توبہ کی پاکیزہ کیفیت اور حالت کو ساتھ رکھنا ہے۔ توبہ جتنی سچی اور خالص ہوگی اصلاح اتنی ہی گہری اور ہمہ گیر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی اصلاح کا مشن لے کر اٹھے ہیں تو آپ کو سب سے زیادہ قوت کے ساتھ توبہ کا صحیح تصور اور سچی رغبت پیدا کرنی ہے۔ دنیا کا کوئی اصلاحی مشن توبہ کے صحیح، تسلی بخش اور امید افزا تصور کے بغیر کامیاب ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
اگر صالحین اور مصلحین کی ایک جماعت تشکیل پاتی ہے تو اس جماعت کا حقیقی اثاثہ وہ تائبین ہوں گے جو غفلت اور کوتاہی کی اپنی پچھلی روش پر توبہ کرکے اس جماعت میں شامل ہوں گے۔ توبہ کے تجربے سے گزرے بغیر اس جماعت میں جو شامل ہوگا، یا جو اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد توبہ کے تجربے سے نہیں گزرے گا، وہ اس جماعت کا ایک بے روح پرزہ ہوگا۔ قرآن مجید میں تمام مومنوں کو توبہ کرنے کی تلقین کی گئی: ’’اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔ (النور:31) معلوم ہوا کہ فرد اور جماعت دونوں کی کامیابی کا راستہ توبہ سے ہوکر گزرتا ہے۔

توبہ کا ایک ناقص طریقہ جزوی توبہ کا طریقہ ہے، یعنی صرف کچھ گناہوں سے توبہ کرنا، یہ طریقہ بہت عام ہے، کسی تذکیر یا تنبیہ کی وجہ سے آدمی کا دھیان اپنے کسی ایک گناہ کی طرف جاتا ہے، اسے اس پر ندامت ہوتی ہے، وہ اس سے توبہ کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، اسے دوبارہ نہیں کرنے کا عہد کرتا ہے، اور اس عہد پر قائم بھی رہتا ہے۔ لیکن اپنی توبہ کو وہ صرف اس ایک گناہ یا ایسے کچھ گناہوں تک محدود رکھتا ہے۔ باقی کتنے گناہوں نے اس کی زندگی میں گہرے بِل بنا رکھے ہیں، اور لگا تار انڈے بچے کررہے ہیں، اس کا خیال اسے نہیں ستاتا ہے۔ قرآن مجید پوری اور مکمل توبہ کا طریقہ سکھاتا ہے کہ آدمی ایسی توبہ کرے کہ اپنی زندگی کے ہر گناہ سے تائب ہوجائے، وہ ایک گناہ سے پاک ہونے ہی کا عہد نہیں کرے، بلکہ پوری زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزارنے کا عہد کرے۔ اور اس عہد پر زندگی بھر قائم رہنے کی کوشش کرے۔ اس دوران جب جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے اس سے سچی توبہ کرتا رہے۔ غرض توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کسی ایک گناہ کے لیے بھی مسکن نہیں بنے۔ اگر کوئی چھوٹا سا گناہ بھی زندگی میں بل بناکر رہنے لگتا ہے، تو انڈے بچے ضرور کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ چھوٹے گناہ کے پیٹ سے بڑے سے بڑے گناہ بھی جنم لے لیتے ہیں۔

گناہوں کو قسطوں میں چھوڑنے کا تصور غلط ہے، یہ وہ منصوبہ ہے جو کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا ہے۔ توبہ یک بارگی شفٹنگ کا تقاضا کرتی ہے، گناہوں والی زندگی سے توبہ والی زندگی میں منتقل ہوجانا توبہ ہے۔ ایک ہی جست میں گندگی اور غلاظت بھرے کھڈ سے باہر نکل کر اچھی طرح نہا دھو کر پاکیزہ مقام پر چلے جانا ہی پاک ہونا ہوتا ہے۔ ہاں جب کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے گندی سے پوری نجات ممکن ہی نہیں ہو تو جتنا ممکن ہو اس قدر ضرور پاک صاف ہوجائے، اور پورے طور پر نکلنے کی کوشش جاری رکھے۔ لیکن پوری پاکی ممکن ہو مگر پھر بھی آدمی کچھ پاکی پر قناعت کرلے، یہ توبہ کی روح کے خلاف ہے۔
توبہ کے سلسلے میں ایک ناقص تصور یہ ہے کہ توبہ کو محض معافی کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، معافی کا عام مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے جرم یا مجرمانہ زندگی کو ترک کردے، اور عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگے۔ لیکن توبہ کا مطلب اس سے بہت اعلی ہوتا ہے، توبہ کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی گناہوں والی زندگی ترک کردے، اور پھر اللہ والی زندگی گزارنے لگے۔ توبہ بہت عالی شان لفظ ہے، قرآن مجید میں لفظ توبہ کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، اللہ کی طرف لوٹ جانا، اور اللہ کا ہوجانا۔

جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے اس وقت اس کی توجہ اللہ کی طرف سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے، وہ اللہ سے اتنا زیادہ غافل ہوجاتا ہے گویا وہ ایمان ہی سے دور ہوگیا ہو۔ حدیث پاک میں اس کی بڑی صاف وضاحت کی گئی ہے:
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب چوری کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب شراب پیتا ہے اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے۔ ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عکرمؒ نے پوچھا: ایمان کیسے اس سے چھین لیا جاتا ہے، انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ڈال کر پھر الگ کرلیا اور کہا اس طرح، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ڈال لیا اور کہا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس اس طرح لوٹ آتا ہے۔ (صحیح بخاری)