یہ، امت کو اس اہتمام و انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پہ قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے، بلکہ اختیار اور قوت سے اس کو نافذ کرنا ہے، جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار و اختیار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدّ نظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے یدعْونَ ِللخَیر کے الفاظ کافی تھے یامْرْونَ بِالمَعرْوف (الآیہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس امت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبیؐ کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علی منہاج النبوت کا قیام تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اس امر کی نگرانی کرے کہ مسلمان اعتصام باللہ کے نصب العین سے ہٹنے نہ پائیں۔ اس کے لیے جو طریقے اس کو اختیار کرنے تھے وہ اصولی طور پر تین تھے۔ دعوت الی الخیر، امر بالمروف، نہی عن المنکر۔ انہی تین سے خلافت راشدہ کے دور میں وہ تمام شعبے وجود میں آئے جو ملت کی تمام داخلی و خارجی ذمے داریوں کے ادا کرنے کا ذریعہ بنے۔
(تدبر قرآن، تشریح آیت نمبر 104 اور 105، سورہ آل عمران)