نظریت اور حکمت عملی میں توازن
نظریت اور حکمت عملی میں ٹھیک ٹھیک توازن قائم رکھنا اس شخص کے لیے ضروری ہے جو واقعات کی دنیا میں عملاً اپنے نصب العین تک پہنچنا چاہتا ہو۔ آئیڈل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے نصب العین کی انتہائی منزل سے کم کسی چیز کو آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھے، اور جن اصولوں کو وہ پیش کرتا ہے، ان پر سختی کے ساتھ جما رہے۔ مگر واقعات کی دنیا میں یہ بات جوں کی توں کبھی نہیں چل سکتی۔ یہاں نصب العین تک پہنچنے کا انحصار ایک طرف ان ذرائع پر ہے جو کام کرنے والے کو بہم پہنچیں، دوسری طرف ان مواقع پر ہے جو اسے کام کرنے کے لیے حاصل ہوں، اور تیسری طرف موافق اور ناموافق حالات کے اس گھٹتے بڑھتے تناسب پر ہے جس سے مختلف مراحل میں اسے سابقہ پیش آئے۔ یہ تینوں چیزیں مشکل ہی سے کسی کو بالکل سازگار مل سکتی ہیں۔ کم از کم اہلِ حق کو تو یہ کبھی سازگار نہیں ملی ہیں اور نہ آج ملنے کے کوئی آثار ہیں۔ اس صورت حال میں جو شخص یہ چاہے کہ پہلا قدم آخری منزل ہی پر رکھوں گا، اور پھر دوران سعی میں کسی مصلحت و ضرورت کی خاطر اپنے اصولوں میں کسی استثنا اور کسی لچک کی گنجائش بھی نہ رکھوں گا، وہ عملاً اس مقصد کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ یہاں آئیڈل ازم کے ساتھ برابر کے تناسب سے حکمت عملی کا ملنا ضروری ہے۔ وہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو پیش قدمی کا ذریعہ بنانا چاہیے، کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن رکاوٹوں کے ہٹانے کو مقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجائش نکالنا چاہیے۔ (رسائل و مسائل،جلد دوم، ص 462)
جذبۂ قربانی کی کمی
جس قوم میں کام کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، صدیوں کے مسلسل انحطاط نے اس [مسلم قوم] کے اخلاق کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ ان میں کیرکٹر کی وہ طاقت بہت ہی کم باقی رہ گئی ہے جس کی مضبوط چٹان پر اٹل فیصلے، مستقل ارادے، ثابت عزائم اور بھروسے کے قابل عہد و میثاق قائم ہوتے ہیں۔ اس میں مدت ہائے دراز سے یہ کمزوری پرورش پارہی ہے کہ ایک چیز کو حق جانیں اور دل سے اسے حق مانیں، مگر اس کے لیے کوئی قربانی گوارا نہ کریں، نہ وقت کی، نہ مال کی، نہ خواہشاتِ نفس کی، نہ اپنے مرغوب افکار و نظریات کی، نہ اپنے جاہلیت کے اذواق اور دل چسپیوں کی اور نہ کسی اور چیز کی۔ انھیں وہ حق پرستی تو بہت اپیل کرتی ہے جس میں حق کو زبان سے حق کہنا اور اس پر لفظی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنا اور اس کے لیے چند نمائشی کام کردینا کافی ہو۔ اور اس کے بعد انھیں اس حق کے خلاف ہر طرح اپنے کاروبار، اپنے ادارے اور اپنی زندگی کے سارے معاملات چلانے کی پوری آزادی حاصل رہے اسی لیے وہ نام نہاد مذہبیت کے ان راستوں کی طرف خوشی خوشی لپک جاتے ہیں جن کی دین داری اور سعی و عمل کا سارا دار و مدار اسلام اور جاہلیت کی مصالحت (compromise) پر ہے۔ لیکن ایسی حق پرستی ان کے لیے ایک ناقابلِ تحمل بار گراں ہے جو کفر واسلام، حق و باطل اور اطاعت و بغاوت کے درمیان دو ٹوک فیصلہ چاہتی ہو اور جس میں ہر اس شخص سے جو حق کو ماننے کا اقرار کرے، پہلا مطالبہ یہ ہو کہ وہ یکسو ہوجائے، اور پھر مزید مطالبہ یہ ہو کہ جس چیزکو اس نے حق مانا ہے اس کے لیے اپنی پوری شخصیت کو تج دے اور عمر بھر کے لیے تج دے۔ (روداد جماعت اسلامی، حصہ دوم)