کلام اللہ کی تلاوت کے آداب

176

…اگلی سطور میں وہ آداب و شرائط پیش کیے جائیںگے جن کا التزام ایک طالب علم کو قرآن مجید کی تلاوت کے وقت تنہائی یا مجمع میں کرنا چاہیے تاکہ اس کا قرآنِ کریم سے مطلوبہ اور اس کتاب کے شایان شان تعلق قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو۔ یہ آداب خود پروردگار عالم نے اپنے کلام اور اپنے رسول خاتمؐ کے ذریعے سے اپنے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ یہ سات آداب و شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

(1) طہارت قبلِ تلاوت (2)تعوذ قبلِ قرأت (3)تسمیہ قبلِ قرأت (4)عظمتِ قرآن کا استحضار (5)ترتیلِ تلاوت (6)استماع و انصاتِ قرأت (7)تدبر فی القرآن۔
تلاوت قرآن میں پہلا ادب یعنی طہارت قبلِ تلاوتِ قرآن کو ہادیِ برحق نے غالباً اس لیے پسند فرمایا ہے کہ اس کلام عالی مقام کو پڑھنے سے پہلے قاری قرآن اور مطالعہ قرآن کرنے والے کو خود کو شعوری طور پر جسمانی و روحانی، حقیقی و معنوی، ظاہری اور باطنی تمام نجاستوں کو دور کرکے بالکلیہ پاک و صاف ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ یہ کلام الٰہی بہت ہی پاکیزہ ہے لہٰذا اس کا جسم بھی پاک ہو اور اس کی روح بھی دنیوی متعلقات و آلائش سے کم از کم مطالعہ قرآن کے وقت تنفر اور دوری اختیار کرے۔ مزید برآں اس کے خیالات بھی پاکیزہ ہوں اور اس کی نیت بھی بالکل پاک ہو یعنی وہ ہدایتِ حق اپنی دنیوی اور اخروی کامیابیوں ا ور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہی طلب کررہا ہو اور اس کا یقین ہو کہ ہدایتِ حق صرف اللہ رب العالمین ہی سے مل سکتی ہے اور قرآن مجید اسی اللہ کا ہدایت نامہ ہے۔

تلاوت کے آداب میں دوسری شرط تعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہے۔ قرآن کریم میں ہی باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قرآن پڑھنے کے وقت راندۂ درگاہ شیطان کے خلاف اللہ کی پناہ طلب کرو‘‘۔ (النحل: 98) اس سے استعاذہ یا تعوذ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ شیطان، قرآن عظیم کی تلاوت و مطالعے میں سب سے زیادہ ذہن بھٹکانے کا کام کرے گا۔ وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہر ممکن حربہ اختیار کرے گا، وسوسہ اندازی کرے گا، جس کا حل و علاج صرف یہی ہے کہ ہم اللہ قادر مطلق کی پناہ شیطان لعین کے ہر وسوسے و حربے کے خلاف مانگ لیں۔ کیونکہ ہمارا رب ہماری ہر پرخلوص اور جائز دعا قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہیے اور امید بھی کہ ابلیس لعین کے ہر وسوسے اور حربے کے خلاف اللہ رب العزت کا دست قدرت ہی ہماری دست گیری کرے گا۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کا زبان سے پڑھنا جس میں معنی کا استحضار اور اخلاص دونوں شامل ہوں، دراصل ہماری اس کیفیت کی عکاسی ہے جس میں ہم تمام محرکات شر کے خلاف اللہ تعالیٰ عزیز و قدیر ہی کی پناہ گاہ میں امن و سکون ڈھونڈتے ہیں۔

قرآن سے مطلوبہ استفادہ کرنے کے لیے یہ بھی ایک ادب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت و مطالعے کا آغاز اللہ ہی کے نام سے کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ذی وقار میں ہر سورت کی ابتدا میں بجز سورہ التوبہ کے بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ بحیثیت ایک مستقل آیت کے شامل کرائی۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہی اپنے کلام کا آغاز بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ سے کرتا ہے تو ہمارے لیے یہی زیب دیتا ہے کہ تلاوت و مطالعہ قرآن کی ابتدا اللہ کے نام سے کریں اور اس کا بہترین طریقہ وہی ہوگا جو اس نے اپنے کلام میں پسند فرمایا۔ یہ کلمات تسمیہ ہمیں نبی خاتم پر پہلی وحی کے کلمہ ’اقرأ‘ کا جواب بھی معلوم ہوتے ہیں یعنی جب ہمارے آقا اور ہادی اعظم کو رب کائنات کا حکم ہوا کہ ’اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ‘ تو اسی خالق و مالک نے ان کلماتِ تسمیہ کے ذریعے اپنے حبیبؐ کی تعلیم و تربیت شروع کردی۔ البتہ ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ رسول وقت کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ در اصل امت کے لیے حکم خداوندی ہوتا ہے کیوں کہ رسول تو نمائندۂ خدا ہی ہوتا ہے لہٰذا رسول خاتم کو دی گئی خدا کی ہر تعلیم بغرض تعلیم و تزکیۂ امتِ مسلمہ ہوتا ہے۔ اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے اس حقیقت کی یاددہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن حکیم میں ایک سو چودہ بار بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم‘ کی تکرار و موجودگی اس کلمے کی رب ذوالجلال و الاکرام کے نزدیک اہمیت کی غماز بھی ہے اور اس کتابِ الٰہی اور رسولِ خاتمؐ کی مخصوص علامت و پہچان بھی جو کتب سابقہ توریت، انجیل میں بتائی گئی ہے۔ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا حوالہ بھی موجود ہے اور نبی اکرمؐ کی ختم نبوت اور رحمۃ للعالمینی کا اشارہ بھی۔

قرآن مجید کی عظمت کا استحضار بھی تلاوت و مطالعہ قرآن کی شرائط و آداب میں سے ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد جگہ اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ قارئین قرآن کو بار بار عظمت قرآن کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔ مثلاً یہ فرمان خداوندی: ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تُو دیکھتا کہ خوفِ الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا‘‘۔ (الحشر: 21) اور اس کا اثر نیک لوگوں پر کیسا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس آیت سے لگائیے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ جس میں آپس میں ملتی جلتی اور بار با ر دہرائی گئی آیات ہیں، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں، پھر ان کے جسم و دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم پڑ جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے‘‘۔ (الزمر: 23) مزید دیکھیے سورہ بنی اسرائیل: 107 تا 109، سورہ انفال: 2، وغیرہ۔ سورہ مریم میں ایمان والوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے کلامِ رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے اور گڑگڑاتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔ (مریم: 58) قرآن مجید کی عظمت کا ایسا ہی استحضار مطالعۂ قرآن کے وقت مطلوب ہے۔

قرآن کریم کی تلاوت کا پانچواں ادب یہ ہے کہ کلام کو ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور مخارج کی صحیح ادائی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور صاف) پڑھو‘‘۔ (المزمل: 4) ترتیل سے پڑھنے سے معانی کا استحضار بھی آسانی سے ہوسکتا ہے اور رب کریم سے مکالمے کے ذریعے سے اس سے قرب کا بھی موقع ملتا ہے۔ کیونکہ تلاوت کے ذریعے سے بندے سے اس کا رب حقیقی براہ راست مخاطب ہوتا ہے اور ترتیل سے بندۂ مومن کے قلب پر کلام اللہ کا مطلوبہ اثر پڑتا ہے اور اسی ذریعے سے قاری قرآن کریم سے مطلوبہ استفادہ کرنے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔

چھٹا ادب قرآن مجید کے سننے سے تعلق رکھتا ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہورہی ہو تو اس وقت بالکل خاموش رہیں اور اس کو غور سے سنیں تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الاعراف: 23) مخالفین و منکرین اسلام کا اس کے خلاف یہی تو رویہ تھاکہ وہ اس پر اندھے بہرے ہو کر گرے پڑتے تھے۔ (الفرقان: 73) اور کبھی شور مچایا کرتے تھے تاکہ وقتی طور پر غالب آجائیں۔ (حم السجدہ: 26) کہنا یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعے و تلاوت کے دوران خشوع و خشیت سے لبریز ایک ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ جس میں رحمت الٰہی متوجہ ہو کیونکہ خشیت قلبی ہی اخلاص نیت اور تقویٰ کی علامت ہے اور تقویٰ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہدایت بالقرآن کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط ہے نیز خشیت قلبی ہی قاری کے قلب میں عظمتِ قرآن کے استحضار کی کسوٹی ہے۔ دراصل خشیتِ قلبی اور انصات کے بغیر مطلوبہ استفادہ نا ممکن ہے۔
قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ تدبر فی القرآن کے بغیر بھی ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ خود قرآن مجید میں ارشاد ربانی موجود ہے کہ ’’یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف (اے محمدؐ) نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور وتدبر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (ص: 29) تدبر فی القرآن کے ذریعے سے ایک طالب علم اپنے ذہن کے دریچے اس کلام کو سمجھنے کے لیے کھولتا ہے تو اسے جستجوئے حق کی راہ میں مشقت کا ثواب ملتا ہے۔ مطالعہ قرآن سے ہمارا مقصد وحید یہی تو ہے کہ ہمارا رب جو اپنے کلام میں ہم سے مخاطب ہے اور اْس نے یہ کلام ہماری پوری ہدایت کے لیے ہی اتارا ہے تو اس سے معلوم کریں کہ وہ دراصل ہم سے کیا چاہتا ہے؟ وہی رہنمائی ہم اس کے کلام سے حاصل کرنے کی پوری سنجیدگی اور اخلاص سے کوشش کریں۔ جو لوگ معانی کے استحضار کے بغیر اور بلاتدبر فی القرآن تلاوت قرآن کرتے ہیں ہماری حقیر رائے میں انھوں نے ثوابِ آخرت تو بھلے ہی کچھ جمع کرلیا ہو مگر اس کتاب سے وہ رہنمائی حاصل نہیں کی جس کے لیے اس کتاب کو نازل کیا گیا تھا۔ کیا تدبر فی القرآن اور ہدایت بالقرآن کی اصل و اہمیت سے کوئی مسلمان انکار کی جرأت کرسکتا ہے؟