اسموگ ایک پیچیدہ اور خطرناک ماحولیاتی مسئلہ ہے جو خاص طور پر سردیوں میں بڑھتا ہے اور انسانی صحت، ماحول، اور زندگی کے معیار پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ پاکستان میں اسموگ کا مسئلہ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں زیادہ شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ اسموگ کی اصل وجہ صنعتی آلودگی، ٹریفک کا دھواں، فصلوں کے ملبے کو جلانا اور موسمی حالات ہیں، جن میں بھارت سے آنے والا دھواں بھی شامل ہے۔
اسموگ کی وجوہات
1۔ صنعتی فضلہ اور گاڑیوں کا دھواں: پاکستان کے بڑے شہر صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہیں جہاں سیکڑوں کارخانے اور فیکٹریاں موجود ہیں۔ یہ فیکٹریاں فضاء میں نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلے کیمیائی عناصر چھوڑتی ہیں، جو اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گاڑیوں کا دھواں بھی ایک بڑا سبب ہے، جس میں مختلف زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایندھن کے جلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
2۔ فصلوں کی باقیات کا جلانا: پاکستان اور بھارت دونوں میں کسان اکثر اپنی فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والے ملبے کو جلا دیتے ہیں۔ اس سے نکلنے والا دھواں فضا میں شامل ہو جاتا ہے اور اسموگ کا سبب بنتا ہے۔ سرحدی علاقوں میں بھارت کے کسانوں کی جانب سے فصلیں جلانے کا اثر بھی پاکستان کے شہروں پر ہوتا ہے، خاص طور پر پنجاب میں۔
3۔ موسمی عوامل: سردیوں میں ہوا کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ہوا کی تہیں نیچے رہتی ہیں، جس کی وجہ سے آلودگی کے ذرات زمین کے قریب جم جاتے ہیں اور فضا میں اسموگ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمی تبدیلیاں اور ہوا کی سمت بھی اسموگ کے بڑھنے میں کردار ادا کرتی ہیں۔
4۔ بھارت سے آنے والی ہوا: پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھارت سے آنے والے دھوئیں کا بھی اثر ہوتا ہے۔ بھارت میں فصلوں کو جلانے اور صنعتی آلودگی کے سبب اسموگ کی شدت بڑھتی ہے اور ہوا کی وجہ سے یہ آلودگی سرحد پار پاکستان تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا براہ راست اثر لاہور، گوجرانوالہ اور دیگر قریبی شہروں پر پڑتا ہے۔
اسموگ کے اثرات
1۔ صحت پر اثرات: اسموگ میں شامل زہریلے عناصر انسانی صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ یہ سانس کی بیماریوں جیسے کہ دمہ، برونکائٹس، اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آنکھوں کی جلن، جلد کی بیماریوں اور دیگر طبی مسائل کا بھی سبب بنتے ہیں۔
2۔ ماحول پر اثرات: اسموگ کا ماحول پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے، جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں کمی اور روشنی کی کمی واقع ہوتی ہے۔ پودوں کی نشوونما میں رکاوٹ آتی ہے، جس سے زرعی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔
3۔ ٹریفک حادثات: اسموگ کے باعث حد نگاہ میں کمی ہوتی ہے، جو کہ ٹریفک حادثات کا سبب بنتی ہے۔ دھند اور اسموگ کی وجہ سے راستے واضح نظر نہیں آتے، اور حادثات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسموگ سے بچاؤ کے عملی اقدامات
1۔ صنعتوں میں قوانین کا نفاذ: حکومت کو صنعتوں کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے چاہئیں تاکہ وہ کم آلودگی پیدا کریں۔ صنعتوں سے خارج ہونے والے مضر کیمیکلز کو کنٹرول کرنے کے لیے فلٹرز اور دیگر آلات کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
2۔ گاڑیوں کا موثر استعمال: حکومت کو چاہیے کہ گاڑیوں کے استعمال میں کمی لانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنائے۔ گاڑیوں میں فیول ایفی شینسی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دیا جائے۔
3۔ زراعت میں اصلاحات: کسانوں کو فصلیں جلانے سے روکا جائے اور زرعی فضلے کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کو کسانوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر زرعی مشینری اور تکنیک استعمال کر سکیں۔
4۔ شجرکاری مہم: درخت فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ شجرکاری کی مہم کو فروغ دیا جائے اور شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ آلودگی میں کمی آئے۔
5۔ عوامی آگاہی: عوام کو اسموگ کے نقصانات اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔ میڈیا، اسکولز اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگوں کو ماحول کی حفاظت کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے۔
بھارت سے آنے والی ہوا کو روکنے کے ممکنہ حل
1۔ بین الاقوامی تعاون: پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی آلودگی کو روکنے کے لیے دونوں ممالک کے ماہرین کو مل کر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مشترکہ ماحولیاتی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے آلودگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
2۔ مصنوعی بارش: مصنوعی بارش یا کلاؤڈ سیڈنگ ایک طریقہ ہے جس میں فضا میں مخصوص کیمیکلز چھڑکے جاتے ہیں تاکہ بارش کا عمل شروع ہو سکے۔ بارش سے اسموگ کم کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن یہ طریقہ مہنگا اور عارضی حل ہے۔
3۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کی ٹیکنالوجی: اسموگ کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کنٹرول ٹاورز، ہوا صاف کرنے والے آلات اور گرین ٹیکنالوجی کا استعمال ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے۔
اسموگ کو روکنے کے لیے دعائیں:
اگرچہ اسموگ جیسے مسائل کا سائنسی اور عملی حل بہت ضروری ہے، لیکن دینی اعتبار سے بھی دعا کی اہمیت ہے۔ مختلف روایات اور قرآن کی آیات کی مدد سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمیں قدرتی آفات سے محفوظ رکھے۔ یہاں چند دعائیں ہیں جو اسموگ اور دیگر آفات سے بچاؤ کے لیے مفید ہیں۔
1۔ سورہ الفلق اور سورہ الناس: یہ سورتیں ہر قسم کے شر سے حفاظت کے لیے ہیں۔ روزانہ صبح و شام ان کا ورد کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے شرور سے محفوظ رہنے کی امید کی جاتی ہے۔2۔ آیت الکرسی: آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور حفاظت کا ذکر ہے۔ اسے پڑھنا حفاظت کا ذریعہ ہے اور آفات سے بچاؤ کے لیے مؤثر ہے۔ 3۔ بارش کی دعا: ’’اللّْٰمَّ اغثِنا‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمیں بارش عطا فرما‘‘۔ اس دعا کے ذریعے اللہ سے بارش کی دعا کی جا سکتی ہے تاکہ اسموگ کم ہو اور آلودگی دھل جائے۔
4۔ حفاظت کی دعا:
’’اللّْٰمَّ احفَظنَا مِن بَینِ اَیدیِنَا وَمِن خَلفِنَا وَعَن ایمَانِنَا وَعَن شَمَائِلِنَا وَمِن فَوقِنَا وَنَعْوذْ بِعَظَمَتکَِ اَن نْغتَالَ مِن تَحتِنَا‘‘۔ اس دعا کے ذریعے اللہ سے ہر طرف سے حفاظت کی دعا کی جاتی ہے۔
اسموگ سے متعلق حکومتی و عوامی ذمہ داریاں
اسموگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے قوانین سخت کرنے چاہئیں اور ان پر عمل درآمد کروانا چاہیے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسے اقدامات اپنائیں جن سے آلودگی میں کمی آئے۔ اسموگ کو روکنے کے لیے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہوگی، مثلاً: غیر ضروری گاڑی کے استعمال سے پرہیز کریں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھائیں۔ کچرے اور فصلوں کے فضلے کو جلانے سے گریز کریں۔ شجرکاری کی مہمات میں حصہ لیں اور اپنے ارد گرد درخت لگائیں۔
آخر میں میں علماء کرام سے درخواست کروں گا کہ وہ نماز استسقاء کا اہتمام کریں اور حکومت پنجاب سے درخواست کروں گا کہ یہ جو بڑی بڑی سوسائٹیاں بن رہی ہیں ان کو روکا جائے اور عمودی عمارتیں تعمیر کی جائیں ایک عمارت جو دو کنال میں ایک کوٹھی بنتی ہے اس میں کم از کم 100 فلیٹ تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور عمران خان نے جو پروگرام بلین ٹری کا شروع کیا تھا اس کو بے شک آپ ’’شریف درخت‘‘ کے نام پہ شروع کر لیں لیکن خدارا قوم کو اس خطرناک اسموک سے بچائیں۔