ہماری طبیعت کو کبھی بادشاہت یا ملوکیت کے ساتھ مناسبت نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن ہی سے ہماری نگاہ میں عہد رسالتؐ اور عہد خلافت راشدہ سمایا ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا اصرار ہے کہ عہد بادشاہت نے عہد جمہوریت سے زیادہ بہتر رہنما پیدا کیے ہیں۔
حجاج بن یوسف بدترین ملوک میں سے ایک تھا لیکن اس میں اتنی دینی حمیت موجود تھی کہ مسلمان عورتوں اور بچوں کے ایک بحری قافلے کو ہندوستان کے بحری قزاقوں نے اغوا کرلیا تو حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو سندھ فتح کرنے کے لیے بھیج دیا۔ خود محمد بن قاسم کا یہ عالم تھا کہ اس نے سندھ فتح کرتے ہی یہاں انصاف اور عوام پروری کا ایسا ماحول پیدا کردیا کہ ہندو محمد بن قاسم کی مورتیاں بنانے لگے۔ آپ کا کیا خیال ہے بابر کا کارنامہ کیا ہے؟ کیا یہ کہ اس نے 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے 19 کروڑ افراد کا ہندوستان فتح کیا؟۔ بلاشبہ یہ بابر کا ایک بہت ہی بڑا کارنامہ ہے۔ مگر بابر کا ایک کارنامہ اس سے بھی بڑا ہے۔ ہوا یہ کہ بابر کا لخت جگر ہمایوں بیمار پڑ گیا، شاہی طبیبوں نے اس کا بہت علاج کیا مگر شفا کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ اچانک ایک دن بابر کو ایک خیال آیا۔ اس نے ایک قدیم روایت کے مطابق اپنے فرزند ہمایوں کی چارپائی کے سات چکر کاٹے اور خدا سے دعا کی کہ تو میری زندگی ہمایوں کو دے دے اور ہمایوں کی بیماری مجھے دے دے۔ بابر کے اس عمل کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی اور بابر بیمار پڑ کر جاں بحق ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بابر کے لیے بادشاہت کیا اپنی ذات کی محبت سے بھی بڑی محبت اپنے بیٹے کی محبت تھی۔ اس طرح باپ کی محبت نے بادشاہت کی محبت کو شکست دے دی۔ کیا آج جمہوری دنیا کا کوئی حکمراں اپنے بیٹے کی محبت میں اپنے اقتدار اور اپنی جان کی قربانی دے سکتا ہے؟ رضیہ سلطان کا دور حکومت طویل نہیں مگر اس نے مختصر دور میں بھی بہترین انسانی اوصاف بالخصوص انصاف کا مظاہرہ کیا۔ اس کا بڑا بھائی خرم اوباش تھا۔ وہ ایک دن ہاتھی پر سوار ہو کر ریاست کے گلی کوچوں سے گزار رہا تھا۔ ایک ہندو لڑکی اپنے گھر کے آنگن میں پلنگ کی اوٹ میں بیٹھی نہارہی تھی۔ خرم نے یہ دیکھا تو ہاتھی کو روک لیا اور دیر تک لڑکی کو تکتا رہا۔ لڑکی کے باپ نے رضیہ کے انصاف کو آواز دی اور رضیہ نے اپنے بڑے بھائی کو اس کے جرم کی پاداش میں کوڑے لگوائے۔ اورنگز یب عالمگیر بھی کہنے کو بادشاہ ہی تھا مگر اس کی زندگی میں سادگی اور قناعت تھی۔ اس کے دربار میں علما کا غلبہ تھا اور اورنگ زیب زندگی کے ہر معاملے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ فتاویٰ عالمگیری اورنگ زیب کے عہد کی ایک لازوال دستاویز ہے جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اورنگ زیب 84 سال کی عمر میں بھی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر میدان جنگ میں دادِ شجاعت دیتا تھا اور مسلم سلطنت کا دفاع کرتا تھا۔ اس نے اپنی جیب خاص سے ہندوئوں کے لیے کئی مندر بنوائے۔ بلاشبہ چنگیز خان ایک سفاک انسان تھا۔ اس نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا اور اس نے مسلمانوں کی درجنوں بستیوں کو تاراج کیا۔ مگر چنگیز خان نے کبھی عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا۔
اس کے برعکس جمہوری عہد کے حکمرانوں کی سفاکی کے سامنے چنگیزی کی سفاکی بچوں کا کھیل ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والی پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ جبکہ دوسری عالمی جنگ میں 8 سے 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ کا اصول یہ ہے کہ ایک آدمی ہلاک ہوتا ہے تو 3 افراد زخمی ہوتے ہیں۔ اس طرح پہلی عالمی جنگ میں 6 کروڑ اور دوسری عالمی جنگ میں 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں کروڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی قیادت صدر ہیری ٹرومین کے ہاتھ میں تھی۔ اس شخص کے سینے میں دل کی جگہ پتھر تھا۔ چنانچہ اس نے جاپان کو فتح کرنے کے لیے ہیروشیما اور ناگا ساگی پر دو ایٹم بم گرا دیے۔ ٹرومین نے اس سفاکی کا مظاہرہ اس کے باوجود کیا کہ امریکا کو معلوم ہوچکا تھا کہ جاپانی فوج روایتی جنگ ہار چکی ہے اور وہ امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والی ہے۔ یعنی امریکا کے لیے جاپان کے خلاف ایٹم بم چلانا ’’ناگزیر‘‘ نہیں تھا مگر اس کے باوجود امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم گرا دیے۔ وہ ایٹم بم جن کی ہلاکت آفرینی کو محسوس کرتے ہوئے آئن اسٹائن نے ایک بار کہا تھا کہ کاش وہ ایٹمی صلاحیت دریافت کرنے والے کے بجائے ایک ’’موچی‘‘ ہوتا۔
ہندوستان میں قیادت کے زوال کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی کٹر ہندو تھے۔ وہ قیام پاکستان کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے قائداعظم کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اپنے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوجائیں تو گاندھی قائداعظم کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنوا دیں گے۔ گاندھی کو پاکستان سے رتی برابر بھی دلچسپی نہیں تھی مگر جب ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے روک لیے تو گاندھی نے اس پر بھوک ہڑتال کردی۔ اس سے آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندوئوں کو یہ پیغام ملا کہ گاندھی تو مسلمانوں اور پاکستان کا دوست ہے۔ چنانچہ نتھو رام گوڈسے نے اس جرم میں گاندھی کو قتل کردیا۔ پنڈت نہرو بھی کٹر ہندو تھے مگر ان میں اتنی وسیع القلبی تھی کہ ہندو ماہرین ان کے پاس ہندوستان کے آئین کا مسودہ لے کر پہنچے تو اس مسودے میں ہندوستان کی دو درجن سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا ہوا تھا۔ مگر ان زبانوں میں اردو موجود نہ تھی۔ نہرو نے کہا کہ ہماری قومی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے مگر آپ نے آئین کے مسودے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ ہندو ماہرین نے کہا کہ بھلا اردو ہم میں سے کس کی مادری زبان ہے؟ نہرو نے کہا میری مادری زبان اردو ہے، چنانچہ ہندوستان کی قومی زبان میں اردو کو بھی شامل کرلیا گیا۔ مگر آج بھارت پر مودی کا راج ہے اور مودی کا ’’تصور مسلمان‘‘ یہ ہے کہ بھارت کے ایک صحافی نے مودی سے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ جب کوئی مسلمان ہندوئوں کے ہاتھوں مرتا ہے تو آپ کو اس کا دکھ تو ہوتا ہوگا؟ مودی نے کہا اگر کتے کا پلا آپ کی گاڑی کے نیچے آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مودی کے لیے بھارت کے مسلمان کتے کے پلّے کے برابر ہیں۔ بھارتی ریاست یوپی کا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم دشمنی میں مودی سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔ بی جے پی کے ایک جلسے میں جس کی صدارت یوگی آدتیہ ناتھ کررہا تھا بی جے پی کے ایک رہنما نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر ہمیں مسلم خواتین کی قبریں کھود کر انہیں ریپ کرنا پڑے تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ مگر یوگی آدتیہ ناتھ نے بی جے پی کے رہنما کو اتنی ہولناک اور شرمناک باتھ کہنے پر کچھ نہ کہا۔
ایک وقت تھا کہ ایک بادشاہ مسلم خواتین اور بچوں کی چیخ و پکار سن کر محمد بن قاسم کو سندھ فتح کرنے کے لیے بھیج دیتا تھا اور آج یہ صورت حال ہے کہ غزہ میں 45 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 80 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے مگر امریکا اور یورپ کیا 56 مسلم ریاستوں کے سربراہان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اس صورت حال سے معلوم ہوگیا کہ دنیا کے موجودہ مسلم حکمرانوں کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ ان کی کوئی تاریخ ہے، نہ ان کی کوئی ’’امت‘‘ ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ترکی کے رجب طیب اردوان کا ’’اسلام‘‘ بھی جعلی ہے اور ایران کی ’’انقلابیت‘‘ بھی جعلی ہے۔ ’’سید‘‘ اور ’’حافظ‘‘ جنرل عاصم منیر کہتے ہیں کہ غزہ کی صورت حال بہت کچھ کرنے پر اکساتی ہے مگر کچھ اور کیا اس سلسلے میں ایک زور دار بیان بھی ان سے نہیں دیا جاتا۔