تبلیغی جماعت کی بس کو حادثہ

245

دونوں ڈرائیورز کی پوری کوشش تھی کہ ایک دوسرے سے آگے نکل جائیں، اس کوشش میں کچھ من چلے بھی ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے، بس میں ’’لگا پیچا تو مچ گیا شور‘‘ کا سماں تھا کبھی ایک ڈرائیور آگے نکل جاتا تو کبھی دوسرا، میں حیران و پریشان اس منظر کو دیکھ رہا تھا کہ موٹروے پر یہ لوگ اس قسم کی حرکتیں کس بے خوفی سے کررہے ہیں اور کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے، شاید میں نے بولنے کی کوشش بھی کی مگر ایک تو میں پردیسی تھا اور پھر اکیلا اصول پسند اس لیے میری آواز شور میں دب گئی۔ کچھ دیر کی کشمکش کے بعد ہم ہار گئے اور دوسری بس والے جیت کا جشن مناتے ہوئے آگے نکل گئے تو گاڑی میں امن ہوا۔

میں نے آنکھیں موند لیں، 30/40 منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی کی رفتار آہستہ ہوئی، میں سمجھا کہ شاید نماز کے لیے روک رہے ہیں، مگر نہیں، آگے نکلنے والے حادثے کا شکار ہوچکے تھے، کچھ زخمی تھے اور کچھ دارفانی سے کوچ کرچکے تھے۔ اور ہارنے والے جیت چکے تھے۔ برسوں قبل ایک دوست کی فرمائش پر تبلیغی اجتماع سے واپسی پر پیش آیا یہ واقع گزشتہ دنوں یہ خبر پڑھ کر یاد آگیا جس میں بتایا گیا کہ رائیونڈ تبلیغی اجتماع سے واپسی پر بس رائیونڈ اجتماع چوک کے قریب روہی نالہ میں گرنے سے بس میں موجود 29 افراد زخمی ہوگئے۔ ایک اور خبر کے مطابق تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد واپس خیبر ایجنسی ضلع خیبر جانے والے افراد کی بس موٹر وے پر بھیرہ انٹرچینج کے قریب حادثہ کا شکار ہو گئی حادثہ میں دو افراد جان بحق دس افراد زخمی ہو گئے حادثہ تیز رفتاری کے باعث بس کا ٹائر برسٹ ہونے سے پیش آیا۔

گزرتے وقت کے ساتھ اس طرح کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ ہر سال اجتماع کے بعد اس طرح کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جس سال مجھے اجتماع پر جانے کا اتفاق ہوا، یہ وہی سال تھاجب ٹرین میں سلنڈر پھٹنے سے حادثہ ہوا تھا۔ اجتماع میں منبر سے بزرگوں کی طرف سے بار بار اعلان ہورہا تھا کہ کھانا پکانے کے لیے سلنڈر استعمال نہ کیے جائیں، کینٹین پر مناسب قیمت میں کھانا دستیاب ہے، اور اگر پھر بھی کسی کو پکانا ہے تو پنڈال سے باہر جگہ مختص ہے وہاں پر کھانا بنایا جائے، مگر اس کے باوجود کچھ لوگ مصر رہے کہ کہ کچھ نہیں ہوگا، شکر کچھ نہیں ہوا، اگر ہو جاتا تو…؟ اجتماع کے آخری دن دعا سے قبل بزرگوں کی طرف سے پنڈال سے نکلنے کا ایک بہترین شیڈول دیا گیا تھا مگر جیسے ہی دعا ختم ہوئی لوگوں کی ایک بڑی تعداد پنڈال سے ایسے نکلی جیسے شادی کے موقع پر ’’روٹی کھل گئی ہے‘‘ کے وقت کیفیت ہوتی ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ لوگ جن بزرگوں کی بات سننے کے لیے اپنے گھر کا نرم بستر، سہولتیں، اپنا کاروبار، نوکریاں چھوڑ کر ہزاروں روپے خرچ کرکے اس اونچی نیچی، کھڈوں والی زمین پر سوتے ہیں، اپنی مرضی کے خلاف کھانے کھاتے ہیں، واش رومز، وضو کے لیے وقت سے پہلے تیار ہوتے ہیں وگرنہ پھر لمبی لائین۔ مگر پھر یہ ان بزرگوں کی ہدایات پر 100 فی صد عمل کیوں نہیں کرتے۔ میں انتہائی ادب سے ملتمس ہوں اپنے تبلیغی دوستوں سے برائے کرم ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اجتماع کے دوران بزرگوں کی بات سننا اگر ثواب کا کام ہے تو اس پر عمل کرنا ڈبل ثواب کا کام ہے، اگر دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے پر اجر ملتا ہے اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے تو اپنی بس کے ڈرائیور کو پیار محبت سے یہ بات سمجھانے کہ بھائی مقابلہ بازی نقصان کا باعث بنتی ہے، ٹریفک قوانین کی پاس داری ہم سب کی ذمہ داری ہے، حکومت وقت نے جو قوانین بنائے ہیں ان پر بھی ہم نے ہی عمل کرنا ہے قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (مفہوم) ’’اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، جو تم میں حاکم ہے اس کی اطاعت کرو‘‘، یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، اس پر بھی اجر ملتا ہے جب وہ مقابلہ لگانے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ مل کر شور، غوغا کرنے کے بجائے اسے روکیں اور زندگیاں بچائیں۔

نماز پڑھنا فرض ہے، لیکن کہیں بھی گاڑی روک کر نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے، جس طرح دنیاوی معاملات کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے آپ حضرات اسی طرح دوران سفر نماز کے لیے بھی منصوبہ بندی کریں اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ نماز حکومت کے بنائے گئے ریسٹ ایریاز/ سروس ایریاز میں ہی ادا کی جائے۔ اگر موٹروے پولیس آپ کو غیر متعین شدہ جگہ پر نماز ادا کرنے سے نہیں روکتی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کا استحقاق بن گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی ملک میں ایسا ہوتا ہوکہ جہاں جی چاہا ریس لگانی شروع کردی، جہاں جی چاہا دستر خوان لگا دیا، جہاں پر وقت ملا نماز کے لیے صفیں بنالیں۔ حضور خدارا اپنی اہمیت کو سمجھیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ کام درست ہے یا نہیں۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آپ حضرات کی معمولی / غیر معمولی غلط حرکتیں لوگوں کا اس کام میں داخلہ بند کررہی ہیں، اگر آپ اس کام سے جڑ گئے ہیں تو اب اس کو اچھے انداز سے کریں۔ اور ایک آخری گزارش کہ: لوگ آپ حضرات سے یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ لوگ حکومتی قانون کی تابعداری کریں گے، آپ لوگ غلط کام نہیں کریں گے، آپ کی تجارت، معاشرت، لین دین، چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا ہر چیز قرآن، سنت کے مطابق ہوگی۔ اگر کسی بھائی کو میرے کسی لفظ سے تکلیف پہنچی ہو میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔