امپھال (مانیٹرنگ ڈیسک، خبر ایجنسیاں) بھارتی ریاست منی پور میں نسلی فسادات کے بعد کشیدگی برقرار‘ متعدد بچے‘ خواتین اغوا۔ریاستی سرپرستی میں عیسائیوں اور اقلیتوں کی نسل کشی ، سیاسی فوائد کیلیے نسلی تقسیم کو ہوا دی جارہی ہے،انسانی حقوق تنظیمیں۔تفصیلات کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں خون ریز نسلی فسادات اور پولیس ،فوج کے جعلی مقابلوں کے باعث کشیدگی عروج پر ہے۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں عیسائیوں اور اقلیتوں کی نسل کشی جاری ہے۔ جیریبام کے علاقے سے تین بچے اور تین خواتین کو اغوا کرلیا گیا جبکہ دو بوڑھے افراد کی تشدد شدہ لاشیں ملبے سے ملیں۔جیریبام ضلع میں پولیس کے جعلی مقابلے میں 10 کوکی عیسائیوں کی ہلاکت کے بعد سے کرفیو نافذ ہے۔ پولیس نے مقتولین کو شراندازی میں ملوث قرار دیا جبکہ اقلیتی کوکی قبائل کا کہنا ہے کہ 11 نومبر کو جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے عسکریت پسند نہیں بلکہ ہمارے گائوں کے رضاکار تھے۔کوکی قبائل کی جانب سے اپنے اکثریتی اضلاع میں ہڑتال جاری ہے اور ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج نے گاؤں کو لوٹنے اور جلانے میں مدد فراہم کی، احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بھارتی پولیس ،فوج سرعام معافی نہیں مانگتی۔یہ واقعہ گزشتہ ہفتے ضلع میں ایک کوکی خاتون کی جلی ہوئی لاش ملنے کے بعد پیش آیا جس نے برادری میں غصے کو جنم دیا تھا۔اس کے بعد سے پرتشدد واقعات میں کم از کم 200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور برادریاں ریاست کے مختلف حصوں میں حریف گروپوں میں بٹ گئی ہیں، جس کی سرحدیں جنگ زدہ میانمار سے ملتی ہیں۔ ستمبر میں تشدد میں اضافے کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں باغیوں کی طرف سے مبینہ طور پر راکٹ داغنے اور ڈرون سے بم گرانے کے واقعات بھی شامل ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مقامی رہنما سیاسی فائدے کے لیے نسلی تقسیم کو ہوا د ے رہے ہیں۔منی پور میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔یاد رہے کہ مئی 2023 سے منی پور میں دو قبائل کے درمیان خونی جھڑپوں کا سلسلہ مودی کے سرکاری کوٹے کی متنازع پالیسی کے باعث شروع ہوا تھا۔ان فسادات میں ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزرا سمیت اہم سیاسی شخصیات اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔