کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے پاکستان کی طرف سے عام شہریوں پر مقدمے چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کے روز اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے معیار کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے فوری اصلاحات کی جائیں۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کی ہے تاکہ دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات میں عام شہریوں کو شامل کیا جا سکے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان اور بانی پی آٹی آئی عمران خان کے حامیوں و کارکنوں پر بھی 9 مئی 2023 سے متعلق مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے ‘ کمیٹی کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے استعمال کے بارے میں تشویش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمہ چلائے۔
نیز کمیٹی ان رپورٹس کے بارے میں بھی فکر مند ہے جو فوجی عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی سزاو¿ں کی بہت زیادہ شرح کی نشاندہی کرتی ہیں اور یہ کہ 2015 سے 2019 کے زیادہ تر مقدمات میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا یہ بھی تشویشناک ہے کہ فوجی عدالتوں میں آزادی کا فقدان ہے اور فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں شہریوں کو ان قانونی ضمانتوں سے فائدہ نہیں ہوتا جو سویلین عدالتی نظام میں فراہم کی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال اکتوبر میں شہریوں کے فوجی ٹرائل کو غیر آئینی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے خلاف قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس فیصلے کو معطل کر دیا گیا اور اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ عام شہری فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں رہ سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے ادارے نے لکھا کہ ‘ریاست کو فوجی عدالتوں کے بارے میں قانون سازی پر نظرثانی کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ شہریوں پر ان کے دائرہ اختیار اور سزائے موت کے نفاذ کے ان کے اختیار کو منسوخ کرنا چاہیے اور ان کی کارروائی کو میثاق کے آرٹیکل 14 اور 15 کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ منصفانہ ٹرائل یقینی بنایا جا سکے۔
مزید یہ کہ ریاست کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں زیر حراست تمام شہریوں کو بھی ضمانت پر رہا کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی خدشات کا اظہار کیا۔
نیز ماورائے عدالت پھانسیوں کو بھی نوٹ کیا۔ جبکہ من مانی پابندیوں ، آن لائن اور آف لائن اظہار رائے کی آزادی پر پابندیوں اور انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق پابندیوں کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طور پر صحافیوں و سیاسی کارکنوں پر اظہار رائے کی آزادی مشکل بنائی جا رہی ہے۔