عالمی منڈی میں پاکستانی دواؤں کی برآمد کا معاملہ مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ پاکستانی دواؤں کے لیے افغانستان، نائجیریا اور ازبکستان سب سے بڑی منڈی ہیں مگر اب ان ممالک میں بھی پاکستانی دواؤں کو بھارت اور چین کی طرف سے غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔
مقامی انگریزی اخبار میں تجزیہ کار بلال حسین کے مطابق فارما سیکٹر کی نمائندہ شخصیات، ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دوا سازی کا شعبہ دن بہ دن گراوٹ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب سپلائی چین کا موثر نہ ہونا ہے۔ فارما سیکٹر کو خام مال باقاعدگی سے درکار ہوتا ہے۔ اگر خام مال وقت پر نہ مل پائے تو برآمدی آرڈر کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کے لیے افغانستان ایک بڑی برآمدی منڈی رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان روایتی طور پر بھی غیر معمولی نوعیت کے تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ افغانستان خشکی سے گِھرا ہوا ملک ہے۔ اُس کے لیے فطری طور پر پاکستان باقی دنیا سے رابطے کا معقول ترین راستہ ہے۔ افغانستان کی بیرونی تجارت پاکستان کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اِسے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فارماسیوٹیکل پروڈکٹس کے لیے بھی افغانستان ایک انتہائی پُرکشش منڈی رہا ہے مگر اب مسابقت بڑھ چکی ہے۔ بھارت اور چین بھی میدان میں ہیں۔ جہاں جہاں پاکستان نے برآمدات کی گنجائش پیدا کی ہے وہاں اُسے اب چین اور بھارت کی طرف سے پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے حال ہی میں افغانستان کے لیے پاکستانی دواؤں کی برآمد پر 2 فیصد سیس نافذ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی دوائیں اب افغانستان کی منڈی میں مہنگی پڑ رہی ہیں جبکہ بھارت اور چین پہلے ہی سے وہاں قدم جمانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں سیس نافذ کیے جانے سے پاکستان دواؤں کی برآمدی منڈی مشکلات سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کے فارما سیکٹر کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیشِ نظر لازم ہوچکا ہے کہ برآمدات بڑھانے کے حوالے سے حکمتِ عملی تبدیل کی جائے، ترغیبات بہتر بنائی جائیں اور برآمدات کی راہ میں پیدا ہونے والی بیورو کریٹک اور دیگر رکاوٹیں دور کی جائیں۔ پاکستانی فارما سیکٹر کی بہتر کارکردگی کے لیے حکومت کی طرف سے معاونت لازم ہے۔ ایک طرف تو خام مال کی رسد یقینی بنانی ہے اور دوسری طرف بیرونی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کو پُرکشش رکھنا ہے تاکہ پاکستانی دوائیں خریدنے والے ممالک دوسروں کی طرف نہ دیکھیں۔ بھارت اور چین سستی دواؤں کے ساتھ میدان میں ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ لاگت کم کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔
پاکستانی فارما سیکٹر کو چند برسوں سے مشکلات کا سامنا ہے۔ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے مگر حکومت اس طرف متوجہ نہیں ہو رہی۔ فارما سیکٹر کے ماہرین اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھرپور توجہ دی جائے تو پانچ سال کے اندر پاکستان کا فارما سیکٹر سالانہ 3 ارب ڈالر تک کی مصنوعات برآمد کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت زرِمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ ترسیلاتِ زر کے ذریعے بھی زرِمبادلہ حاصل ہو رہا ہے اور دوسری طرف برآمدات بھی قومی خزانے کو مستحکم کرتی ہیں مگر پاکستان برآمدات بڑھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا۔ حکومت اس معاملے کو خاطر خواہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔
ٹیکسٹائل، اناج اور دیگر بہت سے برآمدی شعبوں کی طرف فارما سیکٹر کو بھی حکومت کی توجہ درکار ہے۔ جامع اور موزوں ترین پالیسی مرتب کرنے سے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ برآمدی تاجر چاہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس گھٹائے تاکہ لاگت میں کمی واقع ہو اور بیرونی منڈی میں مسابقت ممکن ہوسکے۔