بات ہوگی مگر دھونس دھمکی سے نہیں، عالمی طاقتوں کو ایران کا انتباہ

280

ایران نے خبردار کیا ہے کہ معاملات ایٹمی توانائی کے ہوں یا کچھ اور، دباؤ اور دھمکیوں کے تحت مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے حکام کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ معاملات کو کبھی زور دے کر، دباؤ ڈال کر درست نہیں کیا جاسکتا۔

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے جمعرات کو تہران میں ایرانی حکام سے مذاکرات کیے اور اس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ گروسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بات چیت نکتہ سر اور مفید رہی ہے۔ فریقین ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے تیار ہیں اور اس معاملے میں کوئی الجھن نہیں پائی جاتی۔

ایران کے وزیرِخارجہ عباس عراقچی کہتے ہیں کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے اپنے ملک کو 2018 میں الگ کرکے معاملات کو بگاڑا تھا۔ اس کے بعد پیدا ہونے والے ایٹمی تعطل کی ساری ذمہ داری امریکا ہی پر عائد ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ ایران نے امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سے جامع مذاکرات کیے تھے۔ عالمی طاقتیں چاہتی تھیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کرنے سے گریز کرے۔ اسرائیل کا موقف تھا کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار تیار کرلیے تو خطے میں ایٹمی جنگ کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا۔

ایرانی وزیرِخارجہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ایران کے لیے اپنے مفادات سب سے بڑھ کر ہیں۔ بات ہوسکتی ہے مگر مفادات کی قیمت پر نہیں۔ ایران کسی بھی صورت اپنے مفادات دسے دست بردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے دوبارہ ایٹمی توانائی کی طرف جانے کا راستہ چُنا ہے تو اِس کی ذمہ داری امریکا کے سابق اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ایران سے کیے جانے والے ایٹمی معاہدے سے الگ ہوکر معاملات کا خطرناک حد تک الجھادیا۔