پی آئی اے کی بربادی اپنے عروج تک اس وقت پہنچ گئی جب شہری ہوا بازی کے وزیر نے ایک کے حادثے کی رپورٹ کے بعد اسمبلی میں انکشاف کیا کہ پاکستان کے تقریباً دو سو ساٹھ پائلٹوں کی دستاویز مشتبہ ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے سند یافتہ تمام پائلٹ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور بعض ملکوں نے پاکستانی پائلٹوں کو جہاز اڑانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کے یورپ اور بعض مغربی ممالک نے قومی ائر لائن پر مخصوص عرصہ تک کی پابندی بھی عائد کر دی۔ اس سے ایک طرف قومی ائرلائن کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ اس مشکل دور میں زرمبادلہ کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا اور سی اے اے کی ناقص کار کردگی نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ ان مشتبہ پائلٹوں کی وجہ سے سب کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے۔ ادارے کی بربادی میں غیروں کے ساتھ ساتھ کپتانوں کی تنظیم پالپا کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔
پائلٹوں کی تنظیم نے گزشتہ طویل عرصہ سے پورے ادارے کو ایک طرح سے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ ان کے سامنے پی آئی اے کی انتظامیہ ہمیشہ بے بس نظر آئی۔ یہ پائلٹ اپنے لیے ایسی مراعات حاصل کر لیتے تھے جن کی وجہ سے انتظامیہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا بلکہ مسافروں کی تکلیف میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔ انتظامیہ سے بے پناہ مراعات حاصل کرنے کے علاوہ یہ ہر پرواز کے دوران اپنی من مانی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور انتظامیہ کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے ، مجور کر دیتے تھے۔ یہ ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو بھی نظر انداز کر دیتے اسی طرح کافی عرصہ پہلے کی بات ہے جو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی وجہ سے ادارے اور ملک کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے اپنے مفادات کے لیے ہڑتال کروادی، جس سے پی آئی اے کے ساتھ ملک کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا۔
پچھلی حکومت نے اپنا ایک منظور نظر ہوائی داماد کو ائر لائن کا سربراہ مقرر کیا وہ بیک وقت ہوائی داماد کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوتا اور ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے بھی مراعات حاصل کرتا۔ لیکن اس دوران ادارے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے ترکی کی قومی ائرلائن سے کوڈ شیئرنگ کا معاہدہ طے کیا۔ ترکی نے دوست ملک کی حیثیت سے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اس کے جہاز کو مغرب سے مسافروں کو پاکستان پہنچانا تھا، ان مسافروں کو پاکستان سے مشرقی ملکوں تک لانے اور لے جانے کی ذمے داری پاکستان کی قومی ائر لائن کی تھی۔ اس سے قومی ائرلائن کو پانچ گنا زیادہ فائدہ حاصل ہوتا یعنی کم خرچ بالا نشیں۔
مگر ان دامادوں نے اس معاہدے کے خلاف ہنگامے شروع کروا دیے پھر اپنے ساتھ عملے کو شامل کر لیا جس سے عملے کو تو کچھ فائدہ نہیں تھا۔ قومی ائر لائن کو اس معاہدے سے بے پناہ فائدے حاصل ہوتے اس کے بر خلاف ان دامادوں کو مراعات سے محروم ہونا پڑتا جو کہ ان کا ذاتی نقصان ہوتا اس سے زیادہ نقصان ان خلیجی ممالک کی ائرلائنوں کو ہوتا جو کہ قومی ائر لائن کے خسارہ میں جانے کی وجہ سے تیزی سے ترقی کر رہی تھیں انہوں نے بھی اس ہنگامہ آرائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ اس سازش میں ان ممالک کے مقاصد بھی شامل تھے۔ جس طرح پاکستان میں ڈیم بنانے سے روکنے میں پڑوسی ممالک کی سازشیں اب ظاہر ہورہی ہیں۔ اس سازش میں پاکستان کے تمام مراعات یافتہ طبقے شریک تھے۔ حالات بگاڑ نے میں سیاسی جماعت کے کارندوں کا بھی برابر کا ہاتھ ہے ان سیاسی کارندوں نے بھی پی آئی اے کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ سیاسی کارندہ جب اسٹیشن مینیجر بن کر آیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ پی آئی اے تمہاری ماں کی طرح تمہارا خیال رکھتی ہے اس ماں کا دودھ پیو، خون مت پیو، یہ شخص خود پی آئی اے کا دودھ پیتے پیتے خون پینے کی کوششوں میں ادارے سے نکالا گیا اور بعد میں سیاسی آزادیوں کے بعد نوکری پر بحال ہوا۔ ہر ادارے میں یہ خونیں ڈائنیں موجود ہیں۔ جن کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ کے طاقتور سیاسی حکمرانوں سے ہے۔ ان ڈائنوں نے ملک کے ہر نظام میں شامل ہو کر اس کا خون پینا شروع کر دیا۔
جب پی آئی اے کا جہاز گرتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے جس کی وجہ سے میڈیا میں بھی اس کی کارکردگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی جھلکیاں میڈیا میں کچھ عرصہ تک کے لیے دکھائی دیتی ہیں پھر تحقیقات کے قبرستان میں تمام ثبوتوں سمیت دفن کر دی جاتی ہیں۔ لیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیقات کا جہاز کراچی حیدر آباد کے درمیان جنگ شاہی میں گرا کر خاک نشیں کر دیا جاتا ہے یا حمود الرحمن کمیشن کو فوجی پریڈ میں سلامی دے کر قومی پرچم سمیت دفن کر دیا جاتا۔ پاکستان اور پی آئی اے ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ پاکستان کے حالات اور پی آئی اے کے حالات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے حالات کے براہ راست اثرات پی آئی اے پر پڑتے ہیں۔ پاکستان میں جیسی حکومت ہو پی آئی اے کے حالات اس کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو تو پی آئی اے کا سربراہ فوجی ہو جاتا ہے، اعلیٰ عہدوں پر فوجیوں کو متعین کیا جاتا ہے، مزدوروں کے حقوق پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ مزدوروں کی یونینوں پر پابندی لگا کر ان کو سرگرمیوں سے بزور طاقت پابند کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی حکومتوں کے دور میں اس کے برعکس ہوتا ہے مگر ادارے کے سربراہ کا تقرر اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے فائدے کے لیے کس حد تک مفید ہے اس طرح مختلف عہدیداروں کو ان کی سیاسی وابستگی کے مطابق مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ حکمرانوں نے ذاتی پسند کے مطابق بھرتیاں کیں اس میں بھی اس چیز کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ مخالف سیاسی جماعت کے حامی عناصر کی بھرتی کسی صورت نہ ہو۔ پاکستان کے تمام اداروں کی طرح پی آئی اے میں بھی اہل عملہ اہم معاملات سے دور رکھ کر حکمرانوں سے وابستگی رکھنے والے افراد کو ڈیپارٹمنٹ اور سیکشن کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جو کہ فیصلے میرٹ پر کرنے کے بجائے حکمرانوں کی سیاسی اور فوجی پالیسیاں اپنے شعبوں میں نافذ کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ جب پی آئی اے میں مارشل لا 52 نافذ کیا گیا تو اس وقت سیاسی وابستگیاں اپنے عروج پر تھیں۔ مارشل لا 52 نافذ کرنے کے بعد فوجی اہلکاروں نے ان سیاسی وابستگی رکھنے والے عناصر کو ادارے سے باہر نکال دیا۔ ان فوجی اہلکاروں نے بڑی بے دردی سے سیاسی اور کرپٹ افراد کو ادارے سے نکال کر وہاں جبر کا نظام قائم کر دیا، یوں ادارہ ایک کمرشل ائر لائن کے بجائے نیم فوجی ادارے کی شکل اختیار کر گیا۔ سیاسی حکومت کے قیام کے بعد ادارے میں ان تمام سیاسی اور بد عنوان عناصر کو پچھلی تمام مراعات کے ساتھ بحال کر دیا گیا۔ اس طرح ادارے میں میرٹ کا رہا سا عمل دخل بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا گیا۔ میرٹ کے حامل افراد یا تو ادارے سے فارغ کر دیے گئے یا وہ خود چھوڑ کر دوسری ائر لائنوں کی طرف راغب ہوگئے۔ اپنے دیرینہ تجربات سے دوسری ائرلائنوں کو اس مقام سے بھی بہت آگے تک لے گئے جہاں پر انہوں نے اپنی فرض شناسی کی بدولت پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ائر لائنوں میں پہنچایا۔ ان کی اس لیاقت اور دیانت پر دوسری ائرلائنوں نے نہ صرف قدر کی بلکہ ان کو جائز مقام سے بھی نوازا۔ وہ ائرلائن جو ایک زمانے میں پی آئی اے کی خدمات حاصل کر کے بڑی ائر لائنوں میں شمار ہوتی رہی ہیں، بجائے پی آئی اے کی مجموعی خدمات حاصل کرنے کے انہوں نے ان اہل فرض شناس عملے کی انفرادی خدمات حاصل کرلیں جن کی خدمات کو پی آئی اے نے نظر انداز کر کے مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا تھاوہ اہل لوگ دوسری ائر لائنوں میں شمولیت اختیار کر کے دنیا کی ان دوسری ائرلائنوں کو لاجواب ادارے میں تبدیل کر رہے تھے۔ اور ملکی ادارے میں اقربا پروری، میرٹ کی دھجیاں اڑانے والے آگے سے آگے آ کر ادارے میں تباہی اور بربادی کا باعث بنتے چلے گئے۔ یہی حال پاکستان کے تمام اداروں کا ہے کہ جن اداروں کی دنیا بھر میں قدر و منزلت تھی وہ ادارے بربادی کا شکار تھے وہ عملہ کف افسوس ملتا رہا جس نے شب و روز کی محنت سے اِسے دنیا کی بہترین ائرلائن بنا کر دکھایا تھا۔ اب بھی جب پی آئی اے میں کوئی حادثہ ہوتا ہے، کچھ عرصے کے لیے اس کی گونج سنائی دیتی ہے ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار ہو جاتی ہے یہ بھی حقیقت ہے جو بھی الزامات لگتے ہیں وہ سو فی صد درست ہوتے ہیں۔ جواب میں اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے دوسرے پر الزامات کی بھر مار ہو جاتی ہے۔ کراچی میں گرنے والے جہاز کی تباہی کے بعد بھی الزامات اور جوابی الزامات کی بھرمار ہوتی رہی ایک طرف طیارے کے کپتان پر الزامات لگائے جاتے رہے، الزامات سب کے درست ہیں بات صرف کپتان ہی کی نہیں پالپا کی ہے۔ بات صرف پالپا کی نہیں پورے ادارے کی ہے۔ بات صرف کنٹرول ٹاور کی نہیں پورے سی اے اے یا سول ایوی ایشن کی ہے۔
پی آئی اے کا جہاز کا کپتان ہویا پالپا ہو یا پورا ادارہ، ذمے دار حکومت ہی ہے۔ چاہے وہ موجودہ ہو یا سابقہ۔ اسی طرح اطراف کی عمارتوں اور ناجائز تعمیرات ہوں ان کی ذمے دار سندھ حکومت ہی ٹھیرائی جائے گی۔ بحیثیت مجموعی معاشرہ تباہی و بربادی کا ذمے دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ یہ نااہل حکمران نہ پی آئی اے کو چلانے میں کامیاب ہوسکے نہ اب مناسب قیمت پر اس کو فروخت کرنے میں بھی کامیاب ہو پا رہے ہیں۔