جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی: حقیقت یا خواب؟

261

بھارت کے زیر ِ انتظام جموں و کشمیر میں 2019 کے بعد کی صورتحال نے نہ صرف پاک و ہند بلکہ پورے ایشائی خطے کو عدم استحکام اور بے چینی میں مبتلا کردیا ہے۔ اگست 2019 میں بھارتی حکومت نے جابرانہ انداز اپنا کر آئین کے دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، یہ دفعات جموں و کشمیر کی ریاستی خودمختاری کی علامات سمجھی جاتی تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اسے ملک کی یکجہتی اور ترقی کے لیے واجب قرار دے کر منسوخ کردیے لیکن کشمیری عوام، مقامی قیادت، معاشی، معاشرتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی حلقوں، حتیٰ کہ عالمی سطح پر بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے کے طور گردانا گیا۔

برس ہا برس بعد متنازع ریاست جموں و کشمیر کے ایک حصے یعنی یونین ٹریٹری (یو ٹی) اسمبلی کے ابتدائی اجلاسوں میں ان دفعات کی بحالی اور ریاستی حیثیت کی واپسی کا مسئلہ زیر ِ بحث آیا ہے اسمبلی میں حکومتی جماعت نیشنل کانفرنس، بی جے پی اور دیگر نمائندگان کے مابین شدید تکرار، نعرے بازی، حتیٰ کہ ہاتھا پائی کی نوبت تک دیکھنے کو ملی ہے یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام میں بھارتی حکومت کے یک طرفہ فیصلوں کے خلاف شدید تحفظات، غیظ و غضب اور مزاحمت موجود ہے۔ دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کے مطالبے پر اسمبلی میں ہونے والی بحث میں کشمیری عوام کی امنگوں اور جذبات کی عکاسی ہوئی ہے جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وہ اپنی ریاستی شناخت اور سیاسی و سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرداں ہیں۔

دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کشمیری عوام کے لیے ایک سخت دھچکا تھا ان دفعات کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جس کے تحت ریاستی حکومت کو اہم اختیارات حاصل تھے اور کشمیر کی زمین و جائداد، ثقافت، حکومتی انتظام و انصرام اور مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا اوّل حق تھا جو یکسر چھین لیے گئے۔ بھارتی حکومت کے اس جابرانہ فیصلے سے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت اور ان کے بنیادی حقوق پر کاری ضرب لگائے گئی بھارت کے متشدد حکمرانوں کے مطابق اس اقدام سے ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے کشمیری عوام کے معاشی، معاشرتی، سماجی اور اقتصادی مسائل مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں جب سے جموں کشمیر کی عوام عدم تحفظ کے ماحول سے بر سر پیکار ہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد سے جموں و کشمیر میں معاشی ترقی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن زمینی حقائق اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کشمیر میں موجود مشکلات جیسے پانی، بجلی، صحت، تعلیم، اور روزگار جیسے مسائل بدستور باقی ہیں بلکہ ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت ہی آئی ہے کشمیری عوام کے لیے یہ مشکلات اس بات کی علامت ہیں کہ بھارتی حکومت کے فیصلے نے انہیں مزید مسائل، مصائب اور مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔

جموں کشمیر یونین ٹریٹری اسمبلی کا قیام بھارت کی جانب سے ایک علامتی قدم کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے پس پردہ دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ جموں و کشمیر میں سب معمول کے مطابق ہے اور سیاسی عمل پر کوئی قدغن نہیں ہے بی جے پی کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ اس اسمبلی کو بطور ربر اسٹیمپ استعمال کرکے دنیا کو یہ پیغام دے کہ جموں و کشمیر میں معمول کی صورتحال بحال ہوگئی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میں ہونے والی تکرار، نعرے بازی اور ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر میں امن و سکون کی ناقص صورتحال بدستور قائم ہے اسمبلی اجلاسوں میں بی جے پی اور دیگر جماعتوں کے نمائندگان کے درمیان ہونے والی کشیدگی مسلمہ حقیقت ہے جسے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی کے نمائندے مقبوضہ جموں کشمیر کی یو ٹی اسمبلی میں دفعہ 370 اور 35 اے کے مسئلے کو حل شدہ قرار دیتے ہیں اور اس کی بحالی کے کسی بھی امکان کو رد کرتے ہیں جبکہ اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کے نمائندے اس کے برعکس متنازع جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی اور دفعہ 370 اور 35 اے کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں عین ممکن ہے کہ یہ آواز دیر سویر سے ایوان کی غلام گردشوں کو پھلانگ کر شہروں اور قصبوں کے چوک چوراہوں میں ایک بار پھر گونجنے لگیں، جب کہ بھارت نے کشمیر میں جابرانہ اقدامات کو مستقل طور پر برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ ریاست میں فوجی موجودگی کو بڑھائے رکھا ہے کم و بیش دس لاکھ جدید ہتھیاروں سے لیس افواج کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کشمیر میں عوامی جذبات کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جموں کشمیر کی نو زائد یو ٹی اسمبلی بھارتی حکومت کی سازشوں کا شکار ہوتی ہے یا کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ اگر یہ اسمبلی جموں و کشمیر کی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرتی ہے تو یہ کشمیری عوام کے لیے ایک خوش آئند قدم ہوسکتا ہے، ورنہ حسب توقع یہ محض ایک نمائشی اسمبلی ہی ثابت ہوگی۔ دہلی سرکار کے لیے بھی یہ ایک بڑا امتحان ہوگا کہ آیا وہ یو ٹی اسمبلی کو کشمیری عوام کی نمائندگی کا درجہ دیتی ہے اور ان کے حقیقی مسائل حل کرنے کا اختیار دے گی یا ان کی کوششوں کو بے اثر کرنے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات سونپ کر سیاسی بساط لپیٹنے کی حکمت عملی اپناکر ستتر سالہ تاریخ کو ہی دوہراتے کشمیری عوام کو غلامی کی زنجیروں کو دوام ہی بخشے گی۔

بہرکیف! جموں و کشمیر کی یو ٹی اسمبلی کے اجلاسوں میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے مطالبات نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کشمیری اپنے حقوق کے لیے ہر صورت جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں بھارت کی جانب سے کشمیر میں سخت فوجی محاصرہ، جابرانہ پالیسیاں، اور دس لاکھ فوجیوں کی موجودگی واضح کر دیتے ہیں کہ متنازع ریاست کا امن محض ایک ظاہری دکھاوا ہے جبکہ حقیقت میں لوگوں کے دلوں میں بے چینی اور اضطراب پنہاں ہے بھارتی حکومت کے لیے یہ ایک نیا امتحان ہوگا آیا وہ کشمیری عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتی ہے یا حسب سابق مسلم دشمنی، سیاسی چالبازیوں اور جابرانہ اقدامات سے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے انسانیت سوز ہتھکنڈے جاری رکھتی ہے۔

عالمی سطح پر بھاری منصوبے تنقید کی زد میں ہیں بھارت کا اقلیتوں کے ساتھ سلوک، خواتین کی بے حرمتی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو رسائی نہ دینا بھارت کی خفت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن لاپروا بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا ایجنڈے کی سیاست پر سر گرم عمل ہے بلاشبہ، بھارتی اقدامات کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے اس کے باوجود اقوامِ عالم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں کشمیری عوام، جو برسوں سے بنیادی حق کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، حق ِ خودارادیت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور کشمیری عوام کا جائز حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں کشمیری عوام عالمی برادری سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھارت کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیری عوام کو انصاف میسر آئے گا بلکہ پاک و ہند کے تعلقات بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہوں گے، جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کو فروغ ملے گا اور عالمی امن کو فروغ دینے میں بھی سود مند قدم ثابت ہوگا۔