جس نے ایمان کی حالت میں پیارے نبی اکرمؐ کو زندگی میں ایک بار بھی دیکھا وہ صحابی کے درجے پر فائز ہوگیا، لیکن سیدنا اویس قرنیؓ ایک ایسے صحابی ہیں جنہوں نے باوجود شدید خواہش کہ نبی کریم ؐ کو نہیں دیکھا لیکن انہیں نہ صرف صحابی کا درجہ دیا گیا گیا بلکہ نبی اکرم ؐ نے اپنی وفات سے پہلے سیدنا عمرؓ کو ایک چادر دی اور کہا کہ جب بھی اویس قرنیؓ آئیں انہیں یہ چادر میری طرف سے دینا اور ان سے اپنے لیے دعا کرانا۔ اصل قصہ یہ تھا کہ سیدنا اویس قرنی جب سے آپ ؐ کی دعوت پر ایمان لے کر آئے اس وقت سے ان کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح نبی کریم ؐ سے ملاقات ہو جائے لیکن بوڑھی والدہ کی بیماری کی وجہ سے وہ ملنے کے لیے جا نہیں پا رہے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی ان کی ماں کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے کچھ انتظام کیا کہ ان کی جگہ کوئی رشتہ دار یا دوست دیکھ بھال کرلے گا اور پھر انہوں نے والدہ سے اجازت لی کہ انہیں نبی اکرم ؐ سے ملنے کے لیے جانے دیا جائے والدہ نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ تم مدینے میں ملنے جائو اگر نبی کریم ؐ گھر پر نہ ہوں اور مدینے سے کہیں باہر گئے ہوئے ہوں تو انتظار مت کرنا فوراً واپس لوٹ آنا۔ چنانچہ سیدنا اویس قرنی مدینے گئے تو اتفاق سے آپ ؐ اس وقت مدینے سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے،آپ گھر والوں کو اپنا نام بتا کر واپس آگئے۔ رسول اکرم ؐ جب واپس گھر آئے تو انہوں نے اہلیہ سے کہا کچھ خاص قسم کی خوشبو آرہی ہے (یا وحی خفی سے معلوم ہوا) کیا اویس قرنی آئے تھے اس لیے کہ آپ کو معلوم تھا کہ ان کا ایک عاشق ان سے ملنے کے لیے بے چین اور تڑپ رہا ہے لیکن والدہ کی خبر گیری اور دیکھ بھال کی وجہ سے نہیں آپا رہا ہے۔ اہلیہ نے جواب دیا کہ ہاں سیدنا اویس قرنی آئے تھے آپ ؐ کی رحلت کے بعد جب سیدنا اویس قرنیؓ مدینے آئے اور سیدنا عمرؓ سے ملاقات کی وہ بڑے پر تپاک انداز سے ان سے ملے اور بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا رسول اکرمؐ کی دی ہوئی چادر ان کو دی اور کہا کہ اویس قرنیؓ آپ میرے لیے دعا فرمائیے، سیدنا اویس قرنیؓ بہت حیران ہوئے اور کہا کہ اے عمرؓ آپ جس مبارک اور کامل ہستی کے ساتھ ساری زندگی رہے اس لیے آپ کا جو مقام ہے وہ میرا کہاں، بلکہ آپ میرے لیے دعا کیجیے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ جس مبارک ہستی کے ساتھ میں نے زندگی گزاری ہے اسی نے یہ ہدایت کی تھی کہ جب اویس قرنیؓ آئیں تو ان سے اپنے لیے دعا کرانا۔ پھر سیدنا اویس قرنیؓ نے ان کے لیے دعا کی۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے نقل کیا اب سے ایک ہفتے پہلے ایک ایسی ہولناک خبر پڑھی کہ غم کی لہر نے دل کو چھلنی کرکے رکھ دیا اور اس سے پہلے بھی اسی قسم کی ایک خبر سے دل پہلے ہی سے بہت زخمی تھا ایک ہفتے پہلے والی خبر یہ تھی کہ ایبٹ آباد کے کسی گائوں میں ایک شقی القلب لڑکے نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ماں اور باپ کو کوئیں میں پھینک دیا یہ دو ماہ قبل کا واقعہ ہے پولیس نے تفتیش کی تو پتا چلا کہ یہ کام بیٹے نے کیا ہے۔ پھر کوئیں سے ان کی لاشیں نکالی گئیں اور ان کو دفنایا گیا۔ اس اندوہناک واقع سے دو ہفتے قبل کراچی میں لی مارکیٹ کے ایک فلیٹ میں ایک لالچی بیٹے نے فلیٹ ہتھیانے کی خاطر اپنی ماں، بہن، بھابی اور بھانجی کے گلے کاٹ دیے جبکہ کچھ دن قبل یہ ظالم شخص عمرہ کرکے آیا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم زوال کی کتنی گہرائیوں میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ کراچی والے سانحے میں متعلقہ ایس ایچ او بتارہا تھا کہ وہ بوڑھی خاتون کئی بار تھانے آکر یہ رپورٹ کراچکی تھی کہ اس کا بیٹا اسے فلیٹ کی چکر میں قتل کرنا چاہتا ہے اب اس پولیس افسر سے پوچھا جائے کہ تم نے اس بوڑھی خاتون کی کیا مدد کی۔ یہاں پر ایک ضمنی بات اپنی انتظامیہ اور بالخصوص پولیس حکام سے بھی کہوں گا کہ اگر کوئی بزرگ مرد یا خاتون اپنے گھر کے کسی قریبی عزیز کی کوئی شکایت لے کر آئیں تو خدارا انہیں کسی سٹھیائے ہوئے دماغ کی بکواس نہ سمجھا جائے بلکہ کچھ کام اللہ کی رضا کی خاطر بھی کرلیا جائے کہ ان بوڑھے بزرگوں کی دادرسی کا فوری انتظام کیا جائے اگر ہماری پولیس اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھے اور بوڑھے اور معذور لوگوں کی بروقت مدد کا انتظام کردے تو ہو سکتا ہے بہت سے دلخراش سانحات سے محفوظ ہوجائیں۔
ہمارے بچپن میں جو قوالیوں کے پروگرام ہوتے تھے اس میں ایک احمد آزاد قوال ماں کا دل کے نام سے سناتے تھے۔ ماں کا دل ایک سبق آموز واقعہ ہے جس کو وہ منظوم قوالی کے انداز میں پیش کرتے تھے۔ معاشرہ کس طرح نوجوانوں کی تربیت کرتا ہے یہ اس کی ایک مثال ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکا، ایک لڑکی کی محبت میں شدید گرفتار ہوجاتا ہے وہ اس سے شادی کی فرمائش کرتا ہے، لڑکی اسے پسند کرتی ہے نہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے، جان چھڑانے کے لیے وہ ایک کڑی شرط عائد کرتی ہے کہ نہ یہ شرط پوری کرسکے گا اور نہ شادی ہوگی وہ لڑکے سے کہتی ہے کہ تم اپنی ماں کا دل لا کر دو تو میں پھر تم سے شادی کروں گی منظوم شکل میں تو یاد نہیں ہے لیکن نثر میں بات ہوگی درمیان میں قوال صاحب جو انترہ بار بار پڑھتے تھے اس سے لوگوں کے چہروں پر آنسو بہنے کے تاثرات اس قوالی کا اہم جز تھا۔ وہ لڑکا شرط سن کر بڑی شش و پنج میں گرفتار ہو جاتا ہے، لیکن عشق کا بھوت اتنا سوار ہوتا ہے کہ ایک دن وہ فیصلہ کر ہی لیتا ہے کہ آج وہ اپنی ماں کا دل اپنی معشوقہ کے پا س لے جائے گا، وہ جب رات کو گھر واپس آتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹا ہاتھ منہ دھولے میں تیرے لیے کھانا لاتی ہوں وہ جب کھانالے کر آتی ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ لڑکا اپنی جگہ پر کھڑا ہے اتنے میں لڑکا ماں کے سینے پر چھرے کے وار کرتا ہے قوال صاحب اس مصرعے کو بار بار ان الفاظ میں میوزک کہ لہے کے ساتھ گاتے ہیں ’’اور ہاتھ بھر کا چھرا ماتا کے جگر پار گیا‘‘ پورے شامیانے میں جہاں سیکڑوںلوگ ہوتے ہیں سناٹا طاری ہوجاتا ہے کچھ لوگ رو رہے ہوتے ہیں، پھر کہانی آگے بڑھتی ہے وہ اپنی ماں کا دل لے کر معشوقہ کے گھر کی طرف جاتا ہے راستے میں ٹھوکر کھا کر وہ گر پڑتا ہے دل ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے پھر دل سے کچھ آواز آتی ہے اس مصرعے کو بھی قوال صاحب بار بار دہراتے ہیں اور لوگوں کے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں قوال صاحب کہتے ہیں ’’اور ماں کے دل سے آواز یہ آئی۔ بیٹا تجھے کہیں چوٹ تو نہیں آئی‘‘ وہ پھر دل اٹھا کر معشوقہ کے گھر پہنچ جاتا ہے لڑکی ماں کا دل دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے اور گھبرا جاتی ہے وہ کہتی ہے کل کو تجھے کسی اور لڑکی سے عشق ہوگیا اور اس نے کہا کہ اپنی پہلی بیوی کو قتل کر کے آئو تو پھر تو مجھے قتل کردے گا ارے ’’جو اپنی ماں کا نہ ہوا وہ میرا کیا ہوگا‘‘ یہ مصرع قوال صاحب بار بار دہراتے ہیں آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ماحول میں عبرتناک سناٹا طاری ہے اور پھر قوالی ختم ہو جاتی ہے۔
ماں کے پائوں تلے اگر جنت ہے کچھ بزرگ کہتے ہیں کہ باپ جنت کا دروازہ ہے۔ ایک نوجوان صحابی آپ ؐ سے شکایت کرتے ہیں کہ میرے والد ہر وقت مجھ سے پیسے مانگتے رہتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا اچھا انہیں میرے پاس لے آنا دوسرے دن وہ نوجوان صحابی بھی آئے اور پھر ان کے والد بھی آئے جو شاعر بھی تھے وہ سمجھ گئے کہ بیٹے نے میری شکایت کی ہے وہ اسی موضوع پر کچھ اپنے شعر پڑھتے ہوئے آرہے تھے۔ ان صحابی کے آنے سے پہلے حضرت جبرائیلؑ آکے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے نبی کریم ؐ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ان سے وہ اشعار سنانے کو کہا جائے جو وہ راستے میں پڑھتے ہوئے آرہے تھے۔ آپ ؐ نے ان صحابی سے کہا آپ وہ اشعار سنائیے جو راستے میں آپ پڑھتے ہوئے آرہے تھے صحابی نے سنانا شروع کیا اس کا مفہومی ترجمہ یہ ہے کہ جب تو چھوٹا تھا تو میں نے تجھے کھلایا تو نے جو ضد کی وہ پوری کی اسی طرح کی اور باتیں تھیں جب ان کے اشعار ختم ہوگئے تو آپ ؐ نے نوجوان صحابی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج سے جو کچھ تیرا مال ہے و ہ سب تیرے باپ کا ہے۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم۔ آپ ؐ سے کسی نے پوچھا کہ میری کمائی میں سب سے پہلا حق کس کا ہے آپ ؐ نے فرمایا تیرے والدین کا۔ اسی طرح کسی نے پوچھا کہ بہترین صدقہ کون سا ہے آپ ؐ نے فرمایا وہ جو تو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے۔