مریضہ کے بیٹے کا ڈاکٹر پر قاتلانہ حملہ، چاقو کے 7 وار

320

پاکستان کی طرح بھارت کے اسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے مریضوں کے تیمار دار توجہ نہ دیے جانے پر ڈاکٹرز اور پیرا میڈٰیکل اسٹاف پر حملہ کردیتے ہیں۔ ایسے واقعات میں کئی ڈاکٹرز قتل بھی ہوچکے ہیں۔

بھارتی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی (مدراس) میں ایک مریضہ کے بیٹے نے ڈاکٹر پر چاقو کے سات وار کیے جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اسپتال کے عملے نے ملزم کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔

چنئی کالائی نگر سینٹینری ہاسپٹل میں ایک خاتون کو داخل کیا گیا تھا۔ مریضہ کا علاج کیا جارہا تھا مگر اُس کا بیٹا، جو ساتھیوں کے ساتھ وہاں آیا تھا، کسی بات پر مشتعل ہوگیا اور عملے کو گالیاں بکنے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ اُس کی ماں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔

عملے سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اُس کا پارہ چڑھتا گیا اور پھر اُس نے چاقو سے ڈاکٹر پر حملہ کردیا۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کچھ سمجھ پاتا یا پیرا میڈیکل اسٹاف کچھ کر پاتا، ملزم سات وار کرچکا تھا۔ واردات کے بعد اُس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر وہاں موجود افراد نے اُسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔

تمل ناڈو کے وزیرِاعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تمام قانونی ضابطوں کے مطابق کارروائی کی جائے اور ملزم کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔

ڈاکٹر بالاجی شدید زخمی ہوئے اور انہیں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم اُن کا علاج کر رہی ہے۔ یہ واقعہ کینسر وارڈ کا ہے جہاں وِگنیش کی ماں زیرِعلاج ہے۔ ریاستی وزیرِ صحت ما سبرمینین نے بتایا ہے کہ اب تک دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور وِگنیش کے ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔

تمل ناڈو کے وزیرِاعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان کی سلامتی یقینی بنانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کا بھرپور احترام بھی کیا جانا چاہیے۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا ہے جب ملک بھر میں ڈاکٹرز اپنی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے حکومت سے بھرپور اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت بھر میں ڈاکٹرز پر حملوں اور ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیڈی ڈاکٹرز سے زیادتی کے بعد قتل کے کیس بھی بڑھ رہے ہیں۔ ریاستی حکومتیں اِس حوالے سے بہت پریشان ہیں اور میڈیکل کمیونٹی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔