باکو : کلائمٹ ایکشن سمٹ کے 29 ویں اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ماحولیاتی انصاف کے بغیر کوئی حقیقی لچک ممکن نہیں ہے ۔
انہوں نے سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم منفی اخراج کرنے والے ممالک کے طور پر دوسرے ممالک کے اخراجات کے اثرات برداشت کر رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس لچک پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں ۔ ماحولیاتی انصاف کے بغیر حقیقی لچک کا حصول ممکن نہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے 2022 میں جو مشکلات برداشت کیں، وہ کسی دوسرے ملک کو نہ دیکھنا پڑیں ۔ انہوں نے کہا، “پاکستانی قوم محنتی اور ذمہ دار ہے، اور ہم عالمی ماحولیاتی حل کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہیں ۔
وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان نے 2030 تک گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس کام میں توانائی کے 60 فیصد بچت کے ساتھ ماحول پر کافی اچھے اثرات مرتب ہونگے ، اس وقت کلائمٹ ایک جنگ بن چکی ہے جس سے آزادی حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے 2023 میں ایک جامع قومی موافقتی منصوبہ پیش کیا اور 2024 تک اپنا کاربن مارکیٹ فریم ورک تیار کر لیا ہے، مگر اس مقصد کے حصول کے لیے عالمی حمایت کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعظم نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ماحولیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے تقریباً 6.8 ٹریلین ڈالر کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مالیات گرانٹ کی صورت میں ہونی چاہیے، تاکہ یہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا سبب نہ بنے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس اجلاس میں ہونے والی بات چیت میں مالیاتی وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے ، اور اس میں عالمی مالیاتی اداروں اور دولت مند ممالک کی جانب سے مزید فعال کردار کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 28 ویں اور 27 ویں اجلاس میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے فنڈ مختصص کیے گئے لیکن اس پر عمل درامد نہیں ہو سکا اقوام متحدہ اس پر عمل کروائے اور ترقی پذیر ممالک کو ان کا حق دینے میں اپنا اسر رسوخ دکھائے ۔