اسموگ پر اب رونا کیسا

410

ہوسکتا ہے میں یہ بات کہتے ہوئے بہت بے رحم انسان لگوں کہ جو کچھ اسموگ ہمارے ساتھ کررہی ہے ہم اس کے سو فی صد مستحق ہیں۔ نہ میں حیران ہوں اور نہ ہی پریشان۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہورہا ہے کہ جہالت نعمت نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ آپ کو چیزوں یا صورتحال کا پورا علم ہو تو آپ مزے میں رہتے ہیں۔ جہاں دوسرے لوگ جل کڑھ رہے ہوتے ہیں کہ اچانک یہ بلا کہاں سے نازل ہوئی ہے وہیں آپ کو پورا علم ہوتا ہے کہ یہ عفریت کیوں‘ کہاں سے اور کب نازل ہوا۔ جب آپ کو کسی عذاب کے اترنے کی وجوہات کا علم ہو تو پھر آپ تسلی سے اس عذاب کو یا تو جھیلنے کا اپنے اندر صبر پیدا کرتے ہیں یا پھر اس کا سدباب ڈھونڈتے ہیں۔ مجھے اپنی قوم کی قیادت، بیوروکریسی اور عوام کا اندازہ ہے لہٰذا میرے خیال میں اکثریت رولا ڈال کے چپ چاپ سردیاں گزرنے کا انتظار کرتی ہے۔ ہر سال اسموگ آتی ہے اور ہر سال دو تین ماہ لوگ رولا ڈالتے ہیں اور پھر ایک صبح اٹھتے ہیں تو منظر صاف دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور گرمیوں میں بجلی کے ہوشربا بل دیکھ کر نیا رونا دھونا۔

اگلے سال نومبر تک پھر جس دن اسموگ یا دھند شروع ہوتی ہے تو پھر وہی پرانا رولا۔ پہلے صرف دھند ہوتی تھی جو 1998ء سے ہر سال چلی آرہی ہے لیکن اب چند برسوں سے دھند کے ساتھ اسموگ آرہی ہے۔ دھند سے انسانی صحت کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے لیکن اسموگ سے انسانی صحت پر بے شمار منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ لاہور میں تو لوگوں کی بہت بری حالت ہے۔ لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار ہورہا ہے۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہوچکا ہے۔ آپ پوچھیں گے میں اتنا خودغرض اور بے حس کیوں ہوچکا کہ مجھے اس صورتحال پر کوئی فکر یا افسوس نہیں؟ اس کی چند وجوہات ہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے دس سال پہلے ہمارے ٹی وی شو میں محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر حنیف صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ جس طرح پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے، درخت کٹ رہے ہیں، ماحول تباہ ہورہا ہے، کم از کم تین ایسے شہر ہیں جہاں لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ کہنے لگے کہ دس سال بعد ان تین شہروں کے لوگ وہاں نہیں رہ پائیں گے۔ وہ تین شہر لاہور‘ گوجرانوالہ اور فیصل آباد تھے۔ کہنے لگے: کچھ عرصے کے لیے لوگوں کو یہاں سے شفٹ ہونا پڑے گا۔ ابھی اْس وقت اسموگ کا اتنا چرچا نہیں ہوا تھا۔ ویسے ہی ماحول کو جس طرح تباہ کیا جارہا تھا اس سے وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ یہاں کیا تباہی پھرنے والی ہے۔ اْس وقت تو بات صرف تین شہروں تک تھی اب تو ملتان بھی آلودگی میں ٹاپ کر گیا ہے۔

یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم آج جس حالت کو پہنچے ہیں اس کے لیے سب نے مل کر بہت محنت کی ہے۔ اور مجال ہے کوئی اس ایشو پر بات کرے۔ مجھے یاد ہے 2014ء میں چین نے وہاں بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کر دیے اور وہ شہر جہاں سورج نظر نہیں آتا تھا اب وہ صاف شفاف ہیں۔ لیکن انہی دنوں ہمارے پیارے شہباز شریف اور نواز شریف چین پہنچ گئے اور وہاں سے کوئلے کے پلانٹ پاکستان لے آئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئلے کے پلانٹس ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں نہ کہ انسانی آبادی کے درمیان زرعی زمینوں میں۔ یہ پہلا عجیب کام کیا گیا کہ کوئلہ پلانٹ ساحلی علاقے کے بجائے سیکڑوں میل دور ساہیوال کی زرعی زمینوں میں لگا دیا گیا۔ کیا آپ نے سوچا کہ شریفوں نے کوئلے کا بجلی گھر پنجاب میں کیوں لگایا؟ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے اور اس کہانی کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ اگر آپ اس وقت شہباز شریف کے انرجی ایڈوائزر محمد علی کی پاکستان میں لگائے گئے بجلی گھروں کے بارے رپورٹ پڑھ لیں کہ اس کے اصل مالک کون ہیں اور کیسے فرمٹ مین استعمال ہوئے اور کیسے اس کا ٹیرف چند سرکاری بابوز نے اعلیٰ پوسٹنگز اور پروموشن کے لیے بڑھا چڑھا کر دیا۔ جھوٹ بول کر ملین آف ڈالرز کا کھیل کھیلا گیا۔ چلیں ڈالرز ایک طرف‘ پوچھا جائے ریگولیٹرز نے کیسے زرعی علاقوں اور انسانی آبادیوں کے درمیان کوئلے کا پلانٹ لگنے دیا؟ وجہ وہی تھی کہ ان سرکاری اداروں میں بیٹھے افسران نے اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کیا۔ حکمرانوں نے بھی چند ڈالروں کے چکر میں پورا پنجاب ڈبو دیا۔

دوسری طرف ہر بڑے شہر کو کھود دیا گیا۔ ہر شہر میں میٹرو کے نام پر آسمان پر چھتیں ڈال دی گئیں۔ لندن یا نیویارک میں درمیان میں ایک لائن پر بسیں چلتی رہتی ہیں لیکن ہمارے ہاں آسمان پر چھتیں ڈال دی گئیں۔ اگر بات کرو تو اگلے آپ کے گلے پڑ جائیں گے کہ ترقی ہورہی ہے اور آپ ترقی دشمن ہیں۔ ترقی سے یاد آیا کہ ایک دفعہ نواز شریف نے راجن پور میں ایک جلسے سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور جا کر دیکھو۔ اور پھر پنجاب کے پسماندہ اور غریب علاقوں سے لوگ جن کا فنڈ لاہور پر لگ رہا تھا سب کچھ اٹھا کر بڑے شہروں کی طرف چل پڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب کے دیہی علاقوں کو ترقی دی جاتی تاکہ لوگ بڑے شہروں کا رْخ نہ کریں اور آبادی کا جن شہروں کو نہ نگل جائے، الٹا سب ذرائع ایک ہی شہر پر لگا دیے اور اب مزے کی بات ہے جس شہر بارے نواز شریف نے کہا تھا کہ ترقی دیکھنی ہو تو لاہور جا کر دیکھو وہ شہر اب زہر اُگل رہا ہے اور لوگ زہر نگل رہے ہیں۔ یہ تھا ترقی کا ماڈل۔

دوسری طرف اسلام آباد سے لے کر لاہور‘ ملتان سے اب تو رحیم یار خان تک چلے جائیں ہر جگہ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیز بن چکی ہیں۔ اب کوئی جگہ خالی نہیں۔ لاہور میں اگر بربادی کی کمی تھی تو دریائے راوی کے اردگرد اور سینٹرل پنجاب کے پانچ اضلاع میں وزیراعظم عمران خان نے سوا لاکھ ایکڑ زمین دس بلڈرز کو الاٹ کر دی۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بورڈ کا چیئرمین ایک ایسے شخص کولگادیا جو خود ہائوسنگ سوسائٹی کا مالک تھا جس نے سب کچھ ’’ریگولر‘‘کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان خود وہ زرعی زمینیں اور جنگلات اپنے ڈونرز کو حوالے کرنے راوی کنارے گئے اور ساتھ پولیس اور بلڈوزر بھی لے گئے۔ یہ سب کچھ ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا تھا اور کلپس موجود ہیں۔ پولیس کے ذریعے وہاں کے کسانوں پر تشدد کیا گیا‘ پولیس کی مدد سے زبردستی زمینیں ہتھیائی گئیں۔ ہم سب نے رولا ڈالا کہ عقل کریں لاہور پہلے ڈوب رہا ہے اور آپ سوا لاکھ ایکڑ لاہور کے راوی کے گرد بلڈرز کو دے رہے ہیں کہ دھرتی کے سینے میں مزید سریا سیمنٹ ڈال دو۔ الٹا ہمارے خلاف مہم چلا دی گئی کہ یہ ترقی دشمن ہیں۔ دنیا اخبار میں درجنوں کالمز لکھے۔ ٹی وی شوز کیے کہ لاہور اور سینٹرل پنجاب پر رحم کریں۔ الٹا سب سے گالیاں کھائیں کہ آپ لوگ خان کے ویژن کو نہیں سمجھ رہے۔ خان کا بھی راوی ڈویلپمنٹ کا وہی ویژن تھا جو شریف برادرز کا چین سے کوئلے کے پلانٹس لا کر پنجاب میں زرعی زمینوں پر لگانے کا تھا۔ شریفوں کے فرنٹ مین تھے تو خان کے لاڈلے ڈونر تھے جو پارٹی کو پیسہ دے رہے تھے۔

یہ انجام تو ہونا تھا جو ہورہا ہے، ہر خالی جگہ پر ہائوسنگ سوسائٹی بنا کر ماحول کو برباد کر دیا گیا۔ جنگل کاٹ دیے گئے۔ اب سب رو رہے ہیں۔ اس وقت جب میں رولا ڈال رہا تھا تو اس وقت اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں میں بٹی یہ قوم الٹا ہمیں سنا رہی تھی۔ اب بھگتیں اسموگ کو اور چاٹیں اس ترقی کے خوفناک ماڈل کو جو شریفوں اور خان نے متعارف کرایا تھا اور دونوں کے پروجیکٹس ماحول دشمن تھے۔ دونوں حکمرانوں کی نالائقیوں پر بات کرو تو ان کے مرید ہم پر پل پڑتے ہیں کہ آپ ہمارے مرشد اور قائد کا ویژن نہیں سمجھ سکتے۔ (بشکریہ: دنیا نیوز)