اسٹرٹیجک ڈیپتھ یا تزویراتی گہرائی سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنایا جانے والا فوجی ڈاکٹرائن تھا جس کے بہت سے مقاصد میں ایک یہ بتایا جاتا تھا کہ اب پاکستان اپنی حدود میں بیٹھ کر کسی نئے سقوط اور سانحے کا انتظار کرنے کے بجائے پاکستان سے باہر پاکستان کے دفاع کی حکمت عملی اختیار کرے گا۔ اس تصور کی تخلیق ستر کی دہائی میں ہوئی اور اسی کی دہائی میں پاکستان نے اس تصور کا سودا افغانستان میں جم کر فروخت کیا۔ افغانستان کے جہاد کے لیے پاکستان کے انفرا اسٹرکچر اور انسانی سرمائے کے استعمال کا جواز ہی یہ اپنایا گیا کہ کابل میں ایک ایسی پاکستان دوست کا قیام مقصد ہے جو بھارت کے اثر رسوخ سے آزاد ہو اور پاک بھارت عملی مخاصمت میں بھارت کی گھیرائو پالیسی کا حصہ نہ بنے۔ اس خواب کے پیچھے پاکستان کے گلی کوچوں کی ملٹرائزیشن ہوئی اور پاکستان کے نوجوان جذبات سے سرشار ہو کر ڈیورنڈ پار کرکے لڑتے رہے۔ لاتعداد لوگ پاکستان کو مستقبل کے خطرات کے بھنور سے نکالنے کے نام پر تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر افغانستان کے پہاڑوں میں اپنا لہو بہاتے رہے۔ وقت بدلا تو ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونا تو دور کرچی کرچی ہو کر بکھرتا چلا گیا۔ سات جماعتی اتحاد جس نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی تھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہ گیا اور ان کی بندوقوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب ہوگیا اور یوں یہ ملک خانہ جنگی کی دلدل میں دھنس کر رہ گیا۔ ایک دو دہائی افغانستان مارا ماری کا شکار رہا اور اس ماحول میں طالبان نامی ایک نئی قوت کا ظہور ہوا۔ یہ کرشمہ سازی بھی اپنے ہی دست ِ ہنر کا کمال ٹھیرا۔ اپنے ہی مدرسوں کے بچے تھے جنہیں نوے کی دہائی کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے اپنے بچے کہہ کر اپنائیت اور شفقت کا سائبان فراہم کیا تھا۔ جن سات جماعتی افغان کمانڈروں کے پہلو بہ پہلو تزویراتی سفر کا آغاز ہوا تھا اب وہ ’’وارلارڈز‘‘ قرار پا چکے تھے اور اب طالبان خواب کی تکمیل کا دوسرا نام تھا۔
افغان حکمرانوں ظاہر شاہ، صدر دائود، نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین سے ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ یہ سوویت یونین کے زیر اثر اور بھارت کے ساتھی ہیں اور مشکل وقت پر پاکستان کے کام نہیں آتے۔ اسی احساس نے پاکستان کو گل بدین حکمت یار، برہان الدین ربانی اور بہت سے کرداروں کی دریافت اور انہیں اہتمام کے ساتھ پاکستان لاکر میزبانی کرنے پر مجبور کیا مگر امیدوں اور خوابوں کی یہ فصل اکارت چلی گئی۔ یوں یہ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا پہلا سقوط اور مس فائر تھا۔ اس مس فائر کے ازالے کا نام طالبان تھا تو سارا دائو اور سارا جوا اسے نئے مقصد کی تکمیل کے لیے لگادیا گیا۔ طالبان کی کابل میں شاہانہ اور فاتحانہ انداز سے واپسی ہمارا قومی خواب رہا اور یہ خواب بھی نسل نو کو بہت خوب سے دکھایا گیا۔ جنرل حمید گل تو یہاں تک کہتے تھے کشمیر کی آزادی کی کنجی کابل میں ہے جس دن امریکی فوج کابل سے نکل جائے گی اسی دن سری نگر کی آزادی کی بنیاد پڑے گی۔ اب نہ وہ کابل اپنا بن کے اپنا رہا نہ کشمیر کی آزادی کی کنجی ہاتھ آئی۔
ڈھائی برس قبل پندرہ اگست کو طالبان کابل میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے۔ پندرہ اگست کی تاریخ میں گہری معنویت تھی کیونکہ یہ بھارت کا یوم آزادی ہے اور اس وقت بھارت کو کابل کا ڈی فیکٹو حکمران سمجھا جاتا تھا۔ امریکی فوج اپنی طاقت کا مرکز بگرام ائر بیس خالی کر جا چکی تھی اور طالبان فاتحانہ انداز سے کابل میں داخل ہو رہے تھے۔ اس کے ساتھ بھارت اپنا انسانی اور عسکری سرمایہ جہازوں میں بھر کر کابل سے فرار ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ بھارت کو اس خطے میں تاریخ کی سب سے بڑی اسٹرٹیجک شکست ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا خوف اور غیر یقینی کا شکار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اب بھارت نے افغانستان کو ہمیشہ کے لیے گنوا دیا ہے کیونکہ وہاں طالبان نام کی جہادی فورس نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ طالبان کے وزیر سراج حقانی نے اس خوف کو مزید بڑھانے کے لیے سب سے اہم کام یہ کیا کہ وہ ہندوستان پر سترہ حملے کرنے اور سومناتھ کے مندر کو توڑنے والے حکمران محمو غزنوی کے مزار پر جاپہنچے۔ اس میں بھارت کے لیے ایک مستور پیغام تھا اور بھارتی میڈیا نے یہ پیغام پورے سیاق وسباق کے ساتھ سمجھ لیا تھا۔
طالبان کی افغانستان میں فاتحانہ اور والہانہ واپسی اصولی طور پر پاکستان کی تزویراتی گہرائی کی تکمیل تھی۔ اب اس خواب پر عمل درآمد کا وقت آیا جس کا سودا کئی دہائیوں تک پاکستانی معاشرے کو بیچا گیا تھا جس کے نام پر نوجوانوں کو افغانستان کی لڑائی میں کشاں کشاں شریک ہونے پر آمادہ کیا جاتا تھا مگر پھر اچانک یوں ہوا کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان سرد مہری کے رویے غالب آتے چلے گئے اور یہاں تک بات کشیدگی، فوجی تصادم اور تجارت کی بندش تک جا پہنچی۔
کابل اور اسلام آباد کے کشیدگی اور ناخوش گوار ہوتے ہوئے ماحول میں پاکستانیوں کے لیے یہ خبر کسی سانحے سے کم نہیں ہوگی کہ طالبان حکومت اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطہ قائم ہوگیا ہے۔ جس میں دونوں کے درمیان تعاون کے امکانات پر بات بھی ہوئی اور کچھ معاملات پر اصولی اتفاق بھی ہوگیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں پاکستان افغانستان اور ایران کے امور کے جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ نے ایک وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا اور طالبان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تفصیل بھارت کے بجائے طالبان کی وزارت دفاع نے جاری کی اور یہ بات بھی معنی خیز ہے۔ جس کے مطابق دونوں فریقوں نے تعلقات کو وسعت دینے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا اور بات چیت کو آگے بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ اس ملاقات میں بھارت نے طالبان کو چا بہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت کرنے اور افغان فوجیوں کو بھارت میں تربیت دینے کی پیشکش کی۔ اس پر ملا یعقوب جو طالبان تحریک کے بانی ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں نے طالبان فوجیوں کو تربیت کے لیے بھارت بھیجنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ دوملکوں اور قوموں کے درمیان فوجی تربیت اور تبادلے کا مطلب ہے مستقبل کی گہری دوستی جو مشترکہ دفاعی اہداف میں بھی ڈھل سکتی ہے۔ یہ کام اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور میں ہوتا تو کچھ عجب نہیں تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ بریکٹ کیے گئے تھے مگر یہ کام ان طالبان کے دور میں ہورہا تھا جن کی فتح کامیابی اور افغانستان پر اقتدار پاکستان کے عوام کو سب سے زیادہ دکھایا جانے والا خواب اور بیچا جانے والا سودا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ ساڑھے چار عشروں کی کوشش ِ پیہم سے افغانستان میں ’’دوست حکومت‘‘ قائم ہوئی تو آپ مشرق اور وہ مغرب کی سمت کو چل دیے؟ یہ صرف خوابوں کا سقوط نہیں ایک ایسے دفاعی ڈاکٹرائن کی ناکامی ہے جس نے پاکستان کو موجودہ حالت تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایسے میں چار عشروں کی اس کہانی کا ہر واقف حال یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا تزویراتی گہرائی محض نظریاتی کوچہ نوردی تھی؟۔