نواز شریف کی پی آئی اے میں انوکھی گل افشانیاں

428

یوں تو پی آئی اے کو ہر ایک نے ہی تختہ مشق بنا رکھا تھا اور بنا رکھا ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں مگر ماضی قریب میں عمران نیازی نے بھی مغرب پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ایک وزیر کے ذریعے دنیا کو یہ بتا دیا کہ پی آئی اے کے پائلٹس جعلی اسناد پر جہاز اُڑا رہے ہیں جس نے ائر لائن انڈسٹری میں بھونچال پیدا کردیا جس کا ممکنہ رد عمل بھی سامنے آگیا اور پی آئی اے کی یورپ کی فلائٹس تقریباً بند ہو گئیں جس کا بھارت کی فضائی کمپنیوں نے خوب اٹھایا۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ تو گل کھلائے ہیں۔

نواز شریف کا سب سے انوکھا کارنامہ یہ کہ ایک فریش گریجویٹ MBA کو براہ راست چیئرمین پی آئی اے لگا دیا جس کی آسامی ادارے میں گروپ V میں بنتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی چیئرمین پی آئی اے سی نے سب سے پہلے گولڈن ہینڈ شیک متعارف کروایا جس نے ادارے کے انتہائی تجربہ کار افسران و اسٹاف کو گھر کی راہ دکھائی، اس کے بعد موصوف کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو اٹھاون اور پچپن سال کی مینڈیٹری پالیسیوں کا اجرا کر دیا جس نے بچی کھچی تجربہ کار افرادی قوت کو بھی نکال باہر کیا اب پی آئی اے میں نئے افراد رہ گئے یا غیر تجربہ کار رہ گئے ادارے اسی طرح چلا کرتے ہیں کہ جانے والے تجربہ کار افراد اپنے جانے سے پہلے جونیئر افراد کو کام سیکھا جاتے ہیں تاکہ ادارے کے کام متاثر نہ ہوں۔ شاہد خاقان عباسی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سارے تجربہ کار افراد کو نکال باہر کیا پھر لا محالہ جونیئرز کو ترقیاں دے دے کر اوپر لایا گیا۔ مگر تجربے کا فقدان تو باقی رہا یہ تو انتظامی بے قاعدگی تھی اس کے ساتھ ہی ناقابل تلافی مالی مشکلات بھی پیدا ہوگئیں جب ان ہزاروں ملازمین کو بقیہ ملازمت کے چھتیس ماہ کی پوری گراس سیلری یکمشت ادا کی گئی اور پھر ان کے ریٹائرمنٹ کی رقوم جو اربوں میں بنتی تھی وہ بھی یکمشت ادا کی گئیں جس نے ادارے کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا اب اس بوجھ کو کم کرنے کا واحد راستہ بینک کا قرضہ ہی رہ گیا تھا۔ اس ضمن میں سٹی بینک اور اے بی این ایمرو بینک سے انتہائی مہنگے سود ریٹ پر قرضہ لینا پڑا۔ ویسے شاہد خاقان عباسی بڑا عقل مند اور شاطر شخص ہے جس نے ایک ہی سال کی دو دو بیلنس شیٹس ایک لال اور ایک ہری چھاپ دی لال بیلنس شیٹ میں نقصان ظاہر کیا گیا تھا جبکہ ہری بیلنس شیٹ میں منافع ظاہر کیا گیا تھا اب شاہد خاقان صاحب ایک کال کے منتظر تھے کہ اسلام آباد کو منافع دکھانا مقصود ہے یا نقصان دونوں ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھیں کہ اسی اثناء میں جسارت اخبار میں خبر بھی چھپ گئی۔

شاہد خاقان عباسی کے دور میں پی آئی اے کو روٹس کی مد میں بھی بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس دور میں تین اہم ترین روٹس گروی رکھ دیے گئے تھے۔ 1 کراچی۔ لندن۔ کراچی۔ 2 کراچی۔ جدہ۔ کراچی اور کراچی۔ دبئی۔ کراچی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر سٹی بینک کے پاس گروی رکھے تو ان روٹس پر سفر کرنے والے تمام مسافروں کے ٹکٹوں کی مالیت پہلے سٹی۔ بینک دبئی میں جاتی وہاں سے وہ اپنا پورا پورا کمیشن کاٹ کر جو پیسہ بچتا وہ پی آئی اے دبئی کے اکاؤنٹ میں جمع کیا جاتا یہ عالمی تذلیل کی پہلی قسط تھی۔ اسی دور میں جہازوں کے فلیٹ پر بھی شب خون مارا گیا۔ آہستہ آہستہ جمبو جیٹ طیارے کو نشانہ بنانا شروع کیا چلتے ہوئے جمبو B747 کی جگہ سنگاپور آئر لائین اور ہانگ کانگ کی کیتھی پیسیفک ائرلائن کے انتہائی ناکارہ جمبو لائے گئے۔ شاہد خاقان کا ایک اور کارنامہ امریکی کمپنی سیبر کو متعارف کروانا تھا جو زبردستی ہر پیسنجر بکنگ پر اپنا کمیشن مانگنے کھڑا ہوجاتا۔ ہمارا ٹکٹ بکے نہ بکے مگر سیبر کو ڈالروں میں اس کا کمیشن دینا پڑتا۔

نواز شریف کی یوں تو بہت سی پالیسیاں پی آئی اے، سی اے اے اور کسٹم کے حوالے سے ملک کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی رہی ہیں ان میں سے ایک پالیسی ’’گرین چینل‘‘ کی پالیسی ہے، جس کے تحت بیرون ملک سے آنے والے اور بیرون ملک جانے والے مسافروں سے کوئی رقم کسٹم کی مد میں نہیں لی جاتی تھی، اس پالیسی نے کسٹم کے ادارے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ پھر کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا، حیرت کی بات ہے پہلے بھی دو مرتبہ نکالے جا چکے تھے مگر پہلے کبھی نہیں کہا مجھے کیوں نکالا، بار بار ملک کے لیے نقصاندہ پالیسیاں بناتے رہو گے تو نکالے جاتے رہوگے۔

گرین چینل کے علاوہ میاں صاحب نے ایک اور پالیسی ’’اوپن اسکائی پالیسی‘‘ کے نام سے متعارف کروائی تھی۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کراچی، لاہور یا اسلام آباد کے ائر پورٹس پر جو کارگو پڑا ہے وہ کارگو پاکستان کی جھنڈا بردار فضائی کمپنی کے بجائے کوئی بھی اٹھا سکتا ہے، نواز شریف کی اس پالیسی کے سبب یورپی ائر لائینز نے خوب فائدہ اٹھایا، ویسے بھی کارگو سروس پی آئی اے میں نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئی تھی کیونکہ نواز شریف نے جمبو جیٹ طیاروں کو بھی کارگو اٹھانے کے لائق نہیں چھوڑا اس کے پیچھے یقینا مغرب کا ہاتھ ہوگا وہ جانتے تھے کہ اب پی آئی اے کے پاس زیادہ کارگو اٹھانے کی سکت باقی نہیں بچی، اس طرح اس پالیسی کے تحت کارگو کی مد میں ہونے والی خطیر رقوم سے نہ صرف پی آئی اے بلکہ ملک بھی کثیر زرمبادلہ سے محروم ہو گیا۔