اسلام آباد(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں)آئینی بینچ 5 ججز پر مشتمل ہوگا،3رکنی کمیٹی بینچ بنائیگی ،مقدمات مقرر کرنے سے پہلے اسکروٹنی کافیصلہ۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں آئینی بینچز کی تشکیل کیلیے جسٹس امین الدین خان کے چیمبر میں ہونے والے اجلاس میں آرٹیکل 191 اے کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ کا فیصلہ کرلیا گیا۔ عدالت عظمیٰ میں آئینی بینچز کی تشکیل کیلیے جسٹس امین الدین خان کے چیمبر میں اجلاس ہوا جس میں بینچز کے امور کاجائزہ لیاگیا اور آئینی بینچز کے کام کرنے کے طریقہ کار سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔میٹنگ میں جسٹس امین الدین کوزیرالتوا آئینی مقدمات پربریفنگ دی گئی اور بتایا گیاکہ آرٹیکل 184کی ذیلی شق ایک، آرٹیکل 184کی ذیلی شق 3 کے کیس زیرالتواہیں اور آرٹیکل 186 سمیت انسانی حقوق کے کیسز بھی زیرالتوا ہیں۔اجلاس میں 26 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 191 اے کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ کا فیصلہ کیا گیا اور سینئرریسرچرآفیسرمظہرعلی خان کو آرٹیکل 199 کے مقدمات کی اسکروٹنی کا ٹاسک دیاگیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مقدمات سماعت کیلیے مقرر کرنا اور بینچز کے بیٹھنے کا فیصلہ دو سینئر ارکان کی مشاورت سے ہوگا اور کورٹ روسٹر اجرا، ہفتے کے مقدمات کیلیے بھی 2 سینئر ارکان سے مشاورت سے فیصلہ ہوگا۔اعلامیے کے مطابق جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمدعلی مظہر پر مشتمل کمیٹی آئینی بینچ بنائے گی اور آئندہ اجلاس کے بعد میں شیڈول کیاجائے گا، تین رکنی ججز کمیٹی کم از کم 5 ججز پر مشتمل آئینی بینچ بنائے گی تاہم کمیٹی کے ایک رکن جج بیرون ملک ہیں، ان کی وطن واپسی پرکمیٹی اجلاس ہوگا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 6 نومبر کے آئینی بینچز سے متعلق اجلاس کے میٹنگ منٹ جاری کیے گئے، 6نومبر کا اجلاس کمیٹی ممبرجسٹس جمال خان مندوخیل کی عدم دستیابی پرملتوی کیاگیاتھا۔علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا تو کیا ہم غیر آئینی ہیں، اگر ہم خود آئینی مقدمے کا فیصلہ کر دیتے ہیں تو ہمیں کون روکنے والا ہے؟، نظر ثانی بھی ہمارے پاس آئے گی تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمارا دائرہ اختیار ہے۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کی جانب سے ٹیکس سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کا تذکرہ ہوا۔دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا، ہم ریگولر کیسز سن رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے اس وقت کوئی آئینی بینچ نہیں تو یہ جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہے اس کا کیا کرنا ہے، جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا، کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج نے ریمارکس دیے کہ مطلب ہے کہ جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا، آئینی مقدمات نہیں سنے جائیں گے، ہم اس کیس کو سن بھی لیں تو کوئی ہم سے پوچھ نہیں سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب بار بار یہ سوال سامنے آرہا ہے کیس ریگولر بینچ سنے گا یا آئینی بینچ، اگر ہم کیس کا فیصلہ کر بھی دیتے ہیں تو کیا ہو گا، چلیں اگر ہم خود فیصلہ کر دیتے ہیں تو ہمیں کون روکنے والا ہے؟انہوں نے کہا کہ نظر ثانی بھی ہمارے پاس آئے گی تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمارا دائرہ اختیار ہے، آئینی مقدمات ریگولر بینچ نہیں سن سکتا، وکلا کی طرف سے بھی کوئی معاونت نہیں آرہی ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ ابھی ہم یہ کیس سن سکتے ہیں یا نہیں؟ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تھوڑا وقت دیں تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سیکشن ٹو اے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی، جس میں ابھی وقت لگے گا، کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی کہ یہ کیا آئینی بینچ سنے گا یا ریگولر بینچ۔جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی گزارش پر کوئی نقط نظر نہیں دے سکتے، اس کو ملتوی کر دیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم صرف گپ شپ لگا رہے ہیں، عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔