ٹرمپ ساڈا یار ہے

335

اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں 60 سے زائد ڈیمو کریٹک اراکین نے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ’’امریکا پاکستان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رُکوائے‘‘۔ خط میں عمران خان کی قید کی صورت انسانی حقوق کی جس بھیانک خلاف ورزی کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اس کا احساس کرکے صدر بائیڈن کا پورا جسم پسینے میں نہا گیا اور سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ انہوں نے خوفناک چیخ ماری، اپنی نشست کے ساتھ لگی بیل دبائی اور متعلقہ حکام سے کہا کہ ’’پاکستان فون لگائو، انہیں کہو کہ فوراً عمران خان کو رہا کرو۔ ریاست امریکا نیلسن منڈیلا ثانی کی قید برداشت نہیں کرسکتی‘‘ امریکی انتظامیہ نے پاکستانی حکام سے رابطے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی کچھ پرابلم چل رہی تھی، پھر بدذات امریکی انتظامیہ آنے والے نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو زندہ باد کہنے کے چکر میں صدر بائیڈن کی ہدایات سے غفلت برت رہی تھی، یہ پیغام پاکستان نہ پہنچ سکا اور شہباز شریف اپنی رندھی ہوئی آواز میں جنرل عاصم منیر کو عمران خان کو رہا کرنے کا حکم نہ دے سکے۔

چند دن بعد جب صدر بائیڈن وائٹ ہائوس سے رخصت ہوتے وقت کوک کی چسکیاں لے رہے تھے۔ تیرتے ہوئے برف کے ٹکڑوں کی وجہ سے گلاس کی بیرونی سطح نم آلود ہورہی تھی، انہوں نے بھیگی آنکھوں سے ایک ڈائری اوول ہائوس کے خادم خاص کو تھماتے ہوئے کہا ’’یہ ڈائری ٹرمپ کے حوالے کردینا‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوگئے اور آہستہ آواز میں بولے ’’اس ڈائری میں وہ کام درج ہیں یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کی بقا جن پر منحصر ہے لیکن بدقسمتی سے میں ان فرائض کی ادائیگی میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ٹرمپ سے کہنا ’’حرام موت مرے گا اگر ان کاموں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا‘‘۔ خادم خاص نے ڈائری لیتے ہوئے لاکھ کوشش کی کہ اس کی آنکھیںصدر بائیڈن سے عقیدت کے اظہار میں کچھ نم ہو جائیں لیکن اس کی آنکھیں خشک ہی رہیں۔ اس نے ٹشو پیپر سے آنکھیں پونچھتے ہوئے صدر بائیڈن کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا ’’جو حکم پیرو مرشد‘‘۔ یہ سن کر صدر بائیڈن بہت خوش ہوئے۔ گلاس میں بچی کچی کوک خادم خاص کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ’’یہ تمہاری وفاداری کا انعام ہے‘‘۔

جیسے ہی صدر بائیڈن کمرے سے آئوٹ ہوئے، خادم خاص کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے کسی باگڑ بلّے کو رخصت کیا ہو۔ اس نے ایک قہقہہ مارا، ڈائری دیوار پردے ماری اور صدر ٹرمپ کی تعظیم میں رکوع کی حالت میں جانے کی پریکٹس کرنے لگا۔ اس نے تصور میں دیکھا کہ صدر ٹرمپ اس سے کہہ رہے ہیں ’’اگر تم کبڑے نہیں ہو تو سیدھے کھڑے ہو جائو۔ ہم تمہاری وفاداری کے اظہار سے بہت خوش ہوئے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ تم حکم پورا سننے سے پہلے ہی اس کی حمایت میں جُت جاتے ہو۔ یہ اچھی عادت ہے۔ تم بہت آگے جائوگے‘‘۔ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے اگلے دن صدر ٹرمپ اوول ہائوس تشریف لائے۔ خادم خاص کو دیکھا تو سیدھے اس کی طرف آئے اور بولے ’’زیادہ نہ جھکو کمر میں درد ہوجائے گا تم پاکستان کے نہیں یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کے اعلیٰ عہدیدار ہو‘‘۔

وائٹ ہائوس کا چارج سنبھالنے اور ابتدائی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک دن خادم خاص کو طلب کیا اور بولے ’’بھئی بہت تھک گیا ہو ایک کٹ کڑک چائے ہو جائے‘‘۔ خادم خاص نے فی الفور وائٹ ہائوس میں واقع کوئٹہ گلزار ہوٹل سے چائے کا بندوبست کردیا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے صدر ٹرمپ مخمور آنکھوں سے بولے ’’یہ بتائو ہمارے امریکا کے صدر بننے کے بعد کہاں کہاں سے تہنیتی پیغامات وصول ہوئے‘‘ خادم خاص نے کہا ’’سر پہلا اور سب سے زیادہ گرم جوش پیغام تو کریملن کی طرف سے آیا۔ وہاں آپ کے صدر منتخب ہونے کی بہت خوشیاں منائی گئی ہیں۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کی جانب سے بھی بہت گرم جوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کئی تو باقاعدہ جھپی ڈالنے کے لیے امریکا آنا چاہتے تھے لیکن انہیں روک دیا گیا‘‘۔ یہ سن کر صدر ٹرمپ بہت خوش ہوئے لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ کسی خاص ملک کا نام سننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کریدتے ہوئے پوچھا ’’اور کہاں کہاں سے پیغامات آئے ہیں‘‘ خادم خاص نے کہا ’’سر سب سے زیادہ مختصر اور بورنگ پیغام چائنا کی طرف سے آیا ہے لگتا ہے انہیں آپ کے صدر بننے کی زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے بھی گائے کے پیشاب میں بھیگا ہوا بہت گرم جوشی کا پیغام آیا ہے۔ انڈیا کے پڑوس میں پاکستان کی طرف سے بھی گرم جوشی کا اظہار کیا گیا ہے‘‘۔ پاکستان کے نام سے صدر ٹرمپ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان کی متلاشی آنکھیں روشنی سے بھر گئیں۔ انہوں نے کہا ’’ویسے تو ہم پوری اسلامی دنیا کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں لیکن پاکستان وہ اسلامی ملک ہے جس کی ترقی ہمیں بہت عزیز ہے۔ وہاں کے وزیراعظم عمران خان جب امریکا کے دورے پر آئے تھے تو ہم ان سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ وہ بھی ہماری طرح ایک پاپولسٹ لیڈر ہیں۔ وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہیں ہم نے اپنا پیارا دوست قرار دیا تھا۔ ہمیں اگر کسی کے تہنیتی پیغام کا انتظار تھا تو وہ عمران خان تھے‘‘۔

صدر ٹرمپ کی بے خبری خادم خاص کے لیے حیران کن تھی۔ اسے تعجب تھا کہ صدر ٹرمپ کو علم ہی نہیں کہ عمران خان اب پا کستان کا وزیراعظم نہیں قیدی نمبر 804 ہے۔ وہ صدر ٹرمپ کو عمران خان کے بارے میں اپ ڈیٹ کرنا ہی چاہتا تھا کہ فون کی بیل بج اٹھی۔ دوسری طرف رشین پریذیڈنٹ تھے۔ صدر ٹرمپ ان سے باتوں میں لگ گئے۔ کئی دن بعد صدر ٹرمپ اوول ہائوس آئے تو ان کا موڈ خوشگوار نہیں تھا۔ وہ بہت ناراض تھے۔ انہوں نے خادم خاص سے کہا ’’تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں کہ ہمارا یار عمران خان جیل میں ہے۔ میں ایک گنہگار شخص ہوں لیکن لعنت ہے مجھ پر اگر میں عمران خان کو جیل سے با ہر نہ نکال سکوں۔ دوسرے تم نے ہمیں اس ڈائری کے بارے میں بھی ابھی تک لا علم رکھا جس میں صدر بائیڈن کی ہمارے نام نصیحتیں درج ہیں‘‘۔ خادم خاص صدر ٹرمپ کی خفگی سے خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے دراز کھولی اور ڈائری صدرٹرمپ کے آگے رکھ دی۔

صدر ٹرمپ نے ڈائری کھولی تو اس کے پہلے ہی صفحے پر درج تھا ’’میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں وائٹ ہائوس سے باہر پھینک دوں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بیوقوف امریکیوں نے تمہیں ایک بار پھر یونائیٹڈ اسٹیٹس کا صدر منتخب کر لیا ہے۔ مبارک ہو۔ بحیثیت سابق صدر اس امریکی مفاد میں جو مجھے، تمہیں اور تمام امریکی صدور کو بہت عزیز ہے میں تمہیں کچھ نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری پالیسیاں معلومات کے گرد گھومتی ہیں اور نہ ہی اداروں کے، بلکہ شخصیات اور سیاسی مقاصد کے گرد گھومتی ہیں۔ شخصیات کے حوالے سے میں تمہارے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مشترکہ دوست عمران خان جیل میں ہے۔ میں جانتا ہوں تمہاری اولین ترجیح بیرون ملک امریکی افواج کی کم سے کم مداخلت، فوجی امداد میں کمی، دفاع میں زیادہ حصہ ڈالنے کے لیے اتحادیوں پر دبائو، تجارتی ٹیرف میں اضافہ اور چین کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا ہوگا لیکن ان سب معاملات سے کہیں زیادہ اور بہت زیادہ اہم معاملہ عمران خان کی جیل سے رہائی ہے۔ پچھلے دنوں ہیوسٹن میں ول کریسٹ پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں یوتھیوں کا اجتماع تھا وہ دیوانہ وار تمہارے حق میں نعرے لگا رہے تھے ’’نہ کوئی کھڈہ نہ کوئی جمپ ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ، ٹرمپ عمران بھائی بھائی، ٹرمپ ساڈا یار ہے، ٹرمپ ساڈا یار ہے‘‘۔ خواب یہی تک پہنچا تھا کہ نعرے لگاتے ہوئے وہ دھڑام سے بستر سے نیچے گرگیا۔ اس کے ابا جی اسے جھنجھوڑ رہے تھے ’’اوئے پاگل ہوگیا ہے۔ کیا چلا رہا ہے۔ ٹرمپ کسی کا یار نہیں ہے‘‘۔