مساوات مردوزن

389

مغرب میں مساوات مرد و زن کی تحریک جتنے زوروں سے شروع ہوئی تھی، اتنی شدت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ علمی اور نظری دائرے میں اس تحریک پر خود مغرب میں شدید اعتراضات ہوئے اور ان اعتراضات کے جلو میں خواتین ہی کا ایک گروہ ایسا ابھرا جس نے صاف کہا کہ مساوات کی تحریک معاشرے میں ایک ایسی آویزش اور تصادم کو جنم دے رہی ہے جو کسی طرح بھی خواتین کے مفاد میں نہیں۔ مساوات مردو زن کے نعرے میں خواتین کی آزادی کا تصور مضمر تھا اور اس تصور نے آزادی کو انحراف اور مردو زن کے تعلق کی تردید کا ہم معنی بنا دیا۔ چنانچہ خیالات کے اس تانے بانے پر بھی نکتہ چینی ہوئی اور اس نکتہ چینی سے خواتین کی آزادی کی جگہ ایک اور اصطلاح نے لی اور کہا گیا کہ خواتین کی آزادی ایک گمراہ کن تصور ہے اور خواتین کی اصل ضرورت Emancipation ہے۔ چنانچہ Women’s Lib کی جگہ یا اس کے ساتھ ساتھ Emancipation Women’s کا تصور عام ہوا۔ اگر چہ خواتین کی آزادی اور خواتین کی Emancipation کے تصورات کا فرق کبھی واضح نہ ہو سکا لیکن کہا یہ گیا کہ اس کا مفہوم خواتین کو زندگی کی دوڑ میں یکساں مواقع فراہم کرنا ہے، تاکہ معاشرے میں خواتین کا سماجی و اقتصادی رتبہ بلند کیا جا سکے اور انہیں مردوں کے استبداد سے نجات مل سکے۔ نجات کا لفظ یہاں شعوری طور پر استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ Emancipation کا ایک مفہوم نجات بھی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی اور نجات میں کوئی فرق نہیں لیکن بہر حال Emancipation کے تصور سے خواتین کی مذکورہ تحریک کی شدت میں کمی محسوس کی گئی۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ملکوں اور بالخصوص مسلم معاشروں میں Emancipation کے تصور کا اس اعتبار سے خیر مقدم کیا گیا کہ خواتین کی آزادی کے تصور کی تیسری دنیا اور مسلم معاشروں میں جو مخالفت شروع ہوگئی تھی، اس کی شدت میں ’’نجات‘‘ کے تصور سے کمی محسوس کی گئی اور مساوات مردو زن یا خواتین کے حقوق کا مقدمہ لڑنا نسبتاً آسان ہو گیا یا کم سے کم ایسا سمجھا گیا۔ اگر چہ مغرب میں مساوات مردو زن کی تحریک علمی اور نظری دائرے میں کمزور پڑ چکی ہے لیکن عملی زندگی کے دائرے میں اس تحریک کے زیر اثر جو ’’بہاؤ‘‘ شروع ہوا تھا وہ ہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے۔ البتہ پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں مغرب کے زیر اثر خواتین کی آزادی اور مساوات مردو زن کے لیے کام کرنے والے گروہوں کو ابھی تک علم ہی نہیں ہے کہ مغرب میں مذکورہ تحریک کا حال کیا ہے اور وہاں اس سلسلے میں کون کون سے نقطہ ہائے نظر سامنے آگئے ہیں؟ خیر! یہ کوئی عجیب بات نہیں، اس لیے کہ ہم لکیر کے فقیر ہیں اور مغرب میں رونما ہونے والی فکری تبدیلیوں کا علم ہمیں پچیس سال سے پہلے نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو وقت کی ڈور اور طویل ہو جاتی ہے۔ مگر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے، یہاں کہنے کی بات اور ہے۔

وہ بات یہ ہے کہ مساوات مردو زن کی تحریک کے حامیوں اور مخالفین میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ اس تحریک کا حقیقی پس منظر نہ حامیوں کی اکثریت کو معلوم ہے اور نہ مخالفین کی اکثریت اس سے آگاہ ہے۔ بیشک چیزوں اور باتوں کی اندھی حمایت اور اندھی مخالفت کے اپنے مزے ہیں، لیکن بہر حال شعوری حمایت اور مخالفت کا بھی ایک لطف ہے۔ لیکن اس لطف کے لیے ذراسی محنت کرنی پڑتی ہے، اور کچھ نہیں تو ایک آدھ کتاب تو پڑھنی ہی پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ شاعروں پر ہی نہیں عوام پر بھی شاعرانہ مزاج کے بھوت کا غلبہ ہے، اس لیے شعور اور محنت کو ہرن پر لکڑیاں لادنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ جملہ معترضہ طویل ہو سکتا۔ ہے لیکن پھر بات بہت پھیل جائے گی۔

خواتین ناراض نہ ہوں تو ہم عرض کریں گے کہ مغرب میں مساوات مردو زن کی تحریک کی پشت پر خواتین کا احساس کمتری کام کر رہا تھا۔ اور یہ ایسا احساس کمتری تھا جس کا مغرب میں صنعتی نظام کے فروغ اور عالمی جنگوں سے پہلے سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے یہ احساس کمتری موجود ہی نہیں تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ عالمی جنگوں نے یورپ میں مردوں کی شدید کمی پیدا کر دی تھی اور فروغ پزیر صنعتی نظام کو آگے بڑھنے کے لیے ہر طرح کی افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ یہ کمی خواتین کو گھروں سے باہر نکال کر ہی پوری کی جاسکتی تھی۔ چنانچہ خواتین کو گھروں سے باہر نکالا گیا۔ خواتین گھروں سے نکل کر کارخانوں میں تو آگئیں مگر یہاں آکر انہیں معلوم ہوا کہ وہ محنت تو مردوں کے برابر کرتی ہیں لیکن ان کی اجرتیں مردوں سے بہت کم ہیں اور ان کے ساتھ ہر جگہ پر امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اس صورت حال نے کارکن خواتین میں احساس کمتری اور اپنے صنعتی حقوق کا احساس پیدا کیا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک خاص دائرہ زندگی کا مسئلہ تھا اور اس مسئلے کو اسی دائرے تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس مسئلے نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مساوات مردو زن کی بات ازلی و ابدی، آفاقی اور Divine مسئلے کی سی صورت اختیار کر گئی۔ کوئی پیمانہ اور معیار موجود نہ ہو تو بہت سے مسائل کے ساتھ یہی حادثہ ہوتا ہے۔

مساوات مرد و زن کی تحریک کا پس منظر اگر چہ صنعتی نظام، اس کے تقاضوں اور عالمی جنگوں کے اثرات میں مضمر ہے، لیکن اس تحریک کے وسعت اختیار کرنے کے لیے فضا پوری طرح سازگار تھی اور اس فضا کے بغیر یہ تصور ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ یہ فضا خدا اور مذہب کے انکار سے پیدا ہوئی تھی۔ خدا کا انکار یا اقرار محض عقیدے کا مسئلہ نہیں بلکہ خدا کے اقرار یا انکار کے نتائج زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے گوشے پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہم یہ بات پہلے بھی انھی کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ خدا کو درمیان سے نکال دیا جائے تو انسانوں کے درمیان تصادم، مبارزت اور آویزش کے سوا کوئی اور تعلق استوار نہیں ہو سکتا۔ مغرب میں یہی ہوا اور اس کے اثرات مردو زن کے باہمی تعلقات پر بھی مرتب ہوئے۔ ان اثرات کی انتہائی شکل یہ ہے کہ مغرب میں شادی کے ادارے ہی کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ استرداد کلی نہیں لیکن وہاں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد شادی کے ادارے سے باہر زندگی بسر کر رہی ہے۔ خالصتاً صنعتی حوالے سے دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کے لیے مساوات یا عدم مساوات مرد و زن کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں ہونی چاہیے۔