امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد تجزیہ نگار ان کی عالمی پالیسیوں کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں کر رہے ہیں ان میں ایک بڑا حصہ جاپان سے متعلق بھی ہے۔ ٹرمپ کا گزشتہ دور جاپان امریکا تعلقات کے حوالے سے کئی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔
جاپان اور امریکا کے درمیان دفاعی معاہدے کی بنیاد پر SOFA (Status of Forces Agreement) نامی ایک اہم انتظام ہے، جس کے تحت امریکی افواج جاپان میں مقیم ہیں اور وہاں کی سیکورٹی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ معاہدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قائم ہے اور جاپان کی قومی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے۔ تاہم، اس معاہدے کے کچھ پہلوؤں کو وقتاً فوقتاً جاپان میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، خصوصاً اوکی ناوا میں ہونے والے جرائم کے واقعات میں امریکی افواج کے ملوث ہونے پر عوامی سطح پر اکثر احتجاج اور ناراضی کا اظہار بھی منظر عام پر آتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کے تحت اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔ ٹرمپ کا جاپان کے ساتھ اتحاد کو ’’یکطرفہ‘‘ کہنا اور یہ ریمارکس دیناکہ ’’اگر جاپان پر حملہ ہوا تو امریکا تیسری جنگ عظیم لڑے گا، لیکن اگر امریکا پر حملہ ہوا تو جاپان مدد کرنے کا پابند نہیں‘‘ نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نیا باب کھولا۔ ان کے اس بیان نے جاپانی حکام اور عوام میں بے چینی اور خدشات پیدا کیے اور جاپان میں قومی خودمختاری کے حوالے سے اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آیا ان معاہدوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔
ٹرمپ کی حالیہ انتخابات میں دوبارہ کامیابی کے بعد یہ سوال دوبارہ پیدا ہوا ہے کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں دونوں ممالک کے تعلقات میں دوبارہ تناؤ پیدا کرنے کا باعث بنیں گی۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ممکن ہے کہ جاپان کو مزید دفاعی اخراجات برداشت کرنے کے لیے کہے۔ حال ہی میں جاپان نے اپنی دفاعی بجٹ کو دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 2 فی صد ہے، تاکہ مستقبل میں امریکی افواج کے بجائے خود اپنے دفاع کو مستحکم بنا سکے۔
جاپان میں دفاعی نظام میں ترامیم پر بھی غور ہو رہا ہے، جس میں SOFA معاہدے کے کچھ پہلوؤں کو دوبارہ دیکھنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ جو دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر SOFA میں تبدیلی لائی گئی تو یہ عالمی سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ امریکی معاہدوں پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب جاپان کی خارجہ پالیسی میں چین کے بڑھتے اثر رسوخ کے حوالے سے بھی ایک اہم موڑ آیا ہے۔ حال ہی میں چین اور جاپان کے وزراء اعظم کی ملاقات ہوئی ہے جس میں تجارتی اور دفاعی امور پر بات چیت کی گئی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چین کا عالمی سطح پر اثر رسوخ بڑھ رہا ہے اور جاپان کے لیے علاقائی توازن کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
چین کے ساتھ جاپان کے تعلقات کا اثر امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھی پڑتا ہے۔ جاپان چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے مگر وہ علاقائی سلامتی کے معاملات میں امریکا کی حمایت کو برقرار رکھنے کا خواہاں بھی ہے، مجموعی طور پر، ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا جاپان کے لیے ایک نئے چیلنج کی مانند ہے۔ ایک جانب تو جاپان اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھا کر امریکا پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف وہ چین کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنانے کا خواہش مند ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں جاپان اس وقت ’’پریگمیٹک بیلنسنگ‘‘ (pragmatic balancing) کی پالیسی پر گامزن ہے۔ (واضح رہے کہ اس اصطلاح کو اکثر ان ممالک کی پالیسیوں کی وضاحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اپنے اسٹرٹیجک مقاصد کو مختلف بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرکے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ جاپان امریکا اور چین کے ساتھ کر رہا ہے)۔
لیکن ساتھ ہی امریکا کی ناراضی سے بھی بچنا چاہتا ہے۔ جاپان کے لیے آنے والے برسوں میں یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کیسے ایک متوازن پالیسی اپناتا ہے جس میں امریکا اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھے۔
محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقت جاپان کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا ہے جس میں دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط شراکت داری کے نئے مواقع تلاش کیے جائیں۔ SOFA معاہدے میں ترامیم جاپان کو عالمی سطح پر ایک مضبوط اور خودمختار ملک بنانے میں مدد دے سکتی ہیں اور خطے میں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کی نئی جہتیں سامنے لا سکتی ہیں۔