ڈونلڈ ٹرمپ: تارکین وطن کے سر پر لٹکتی تلوار

165

امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹرز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے دن ہی سے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک سے بے دخلی کی ایک بڑی مہم شروع کریں گے۔انہوں نے ملک کی جنوبی سرحد پر غیرمعمولی اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ تارکین وطن کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے رہے کہ وہ غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے متنازع پالیسیوں کو نافذ کریں گے اور نئے آنے والوں کا امریکا میں داخلہ بھی روکیں گے۔ ٹرمپ نے فلوریڈا میں خطاب کے دوران بھی امیگریشن سے متعلق اپنی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی سرحدوں کو ٹھیک کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ واپس جائیں اور ہم انہیں واپس جانے دیں گے۔ انہیں قانونی طریقے سے امریکا آنا ہو گا۔

امریکا میں رہنے والے لاکھوں تارکین وطن کو دوبارہ داخلے کے مراحل سے گزارنے کے لیے کئی قانونی اور لاجسٹک چیلنج درپیش ہیں۔ امریکا میں دوبارہ داخلے کی سخت پالیسی کی وجہ سے بنا دستاویز رہنے والے تارکین وطن کو قانونی عمل سے گزرنے اور اپنی باری کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ویزوں کی سالانہ حد بندی اور ملکوں کا ویزہ کوٹہ بھی ویزوں کے اجرا میں التوا کی بڑی وجہ ہے۔ ویزے کے حصول کے لیے بعض امیدوار ایک دہائی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہیبریو امیگریشن ایڈ سوسائٹی کے سی ای او مارک ہیٹفیلڈ کہتے ہیں کہ یہ بات تو یقینی ہے کہ لوگوںکو ایک بار پھر قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی قطار ہوتی ہی نہیں ہے۔ ویزوں کے اجرا سے متعلق اسی قسم کے مسئلے کا ذکر مائیگریشن پالیسی انسٹیٹیوٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت ویزے کی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم کے ویزے کے لیے لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ لوگوں کو مستقل رہایش کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔ امریکامیں 1996 ء میں ہونے والی امیگریشن ریفارمز اور امیگریشن ریسپانسبلٹی ایکٹ میں غیر قانونی طور پر طویل قیام کرنے والوں کو ملک میں دوبارہ داخلے سے روکنا شامل ہے۔ ایسے تارکین وطن جو دوبارہ اپنے ملک جا کر قانونی طریقے سے واپس امریکا آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے قانون یہ ہے کہ 180 دن سے زائد یا ایک سال سے کم عرصے تک امریکا میں غیرقانونی قیام کرنے والوں کے دوبارہ داخلے پر 3سال کی پابندی ہے۔ ایسے تارکین وطن جو غیرقانونی طور پر امریکا میں ایک سال سے زائد سکونت اختیار کر چکے ہیں ان کے دوبارہ داخلے پر 10سال کی پابندی ہے۔ غیر قانونی قیام میں عام طور پر طویل قیام اور جانچ پڑتال کے بغیر امریکا میں داخل ہونا بھی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اپنی پہلی مدتِ صدارت کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں تارکین وطن کو ملک سے بے دخل کریں گے۔

ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران نیشنل گارڈ کی مدد سے غیر قانونی تارکین وطن کی پکڑ دھکڑ کے ساتھ ایلین اینیمیز ایکٹ کا بھی استعمال کیا تھا۔ اٹھارویں صدر کا یہ قانون صدر کو ملک پر بوجھ بننے والے غیر ملکیوں کی بے دخلی کا اختیار دیتا ہے۔ ٹرمپ امریکا میں بغیر دستاویزات رہنے والوں کی تعداد میں بڑا کمی کرنا چاہتے ہیں اور ان کے حامی اسے قانون پر عمل یقینی بنانے کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس عمل سے قانونی جنگ اور لاجسٹک مسائل پیدا ہوں گے۔ امریکن امیگریشن کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جرمی رابنس کہتے ہیں کہ کسی بھی صدر کو بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھاری اخراجات آئیں گے۔ ان کے خیال میں ایسا کرنا ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کی بے دخلی سے متعلق رابنس نے کہا کہ قانون سازوں اور امریکی عوام کو سمجھنے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ تارکین وطن کی بے دخلی کے معاملے میں مزید کیا چیزیں شامل ہوں گی۔ ان کے خیال میں اس عمل کے لیے امریکی عوام کے ٹیکس کے اربوں ڈالر خرچ ہوں گے، جیلوں میں قید ہزاروں افراد کا معاملہ درپیش ہو گا، ہزاروں خاندان خوف میں مبتلا ہوں گے اور ملک بھر میں مختلف برادریوں میں ایک ہیجانی صورتِ حال پیدا ہو گی۔

ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد پہلی صدارتی مدت میں شروع ہونے والے پروگرام کی بحالی کا امکان ،جو امریکا میں پناہ لینے والوں کو میکسیکو میں انتظار پر مجبور کرتا ہے ، یہاں تک کہ ان کی پناہ کی درخواست پر کارروائی مکمل ہوجائے۔ تارکین وطن کی فوری طور پر بے دخلی اور میکسیکو کی سرحد سے امریکا داخلے پر پابندی سے متعلق پالیسیوں کی دوبارہ بحالی کا قوی امکان ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک اور وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ وہ بائیڈن حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے مخصوص گروہوں کو قانونی طریقے سے امریکا میں داخلے کی اجازت کو ختم کر دیں گے۔ بائیڈن حکومت نے کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا سے ماہانہ لگ بھگ 30 ہزار تارکین وطن کو قانونی طریقے سے آنے کی اجازت دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس کا خاتمہ کریں گے۔ امریکا میں داخل ہونے والوں کی سخت جانچ پڑتال سے متعلق ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سفری پابندی والے ممالک کی فہرست میں اضافہ کریں گے اور ممالک کی نظریاتی جانچ پڑتال متعارف کروائیں گے جس کے تحت ایسے افراد پر پابندی عائد کی جائے گی جو ان کے خیال میں متعصب، نفرت کا پرچار کرنے والے، نا معقول اور جنونی ہوں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا خیال ہے کہ مذکورہ اقدامات قومی سلامتی کو مضبوط بنائیں گے۔ البتہ اس طرح کے عزائم نے شہریوں کی آزادی اور تفریق کے تحفظات کو جنم دیا ہے۔

ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ وہ امریکا میں غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے نو مولود بچوں کو امریکی شہریت کے حق کے خاتمے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کو اپنی امیگریشن منصوبے پر بعض حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن انہیں قانونی ماہرین اور حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی بے دخلی اور سفری پابندی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عدالتی مسائل ہو سکتے ہیں۔ قانونی امیگریشن پر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو خدشات ہیں۔ دوسری جانب تارکین وطن نوجوانوں کی سب سے بڑی امریکی امیگریشن تنظیم یونائیٹڈ وی ڈریم کے پولیٹیکل ڈائریکٹر مچلی منگ نے کہا ہے کہ وہ تارکین وطن خاندانوں کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھال لیں گے تو انہیں یاد دہانی کرائی جائے گی کہ وہ تارکین وطن سے متعلق جو پالیسی نافذ کرنا چاہتے ہیں اس سے وہ اپنی برادریوں کے تحفظ کے لیے لڑنے کو تیار ہیں۔