ای او بی آئی اور شعبہ ہیومیوپیتھی

226

اے ابن آدم ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بوڑھے جن کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے اُن سب کے لیے ایک گھر، فری میڈیکل انشورنس اور 300 ڈالر ماہانہ خرچہ تمام زندگی کے لیے اور ایک حج اور یہ سب اخراجات ترکی کی گورنمنٹ کرے گی۔ فرانس میں 60 سال سے اوپر کے شہریوں کو 700 یورو پنشن دی جاتی ہے، ہم ایک اسلامی ریاست ضرور ہیں مگر کسی طور پر بھی 76 سال میں ہم فلاحی ریاست نہ بن سکے۔ ہم ای او بی آئی 8 ہزار دیتے ہیں جبکہ قانونی طور پر کم از کم ای او بی آئی 37 ہزار ہونا چاہیے کیونکہ مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار تو حکومت ہی کا اعلان ہے۔ بلکہ یہ حکومت تو فارم 47 کی حکومت ہے۔ لہٰذا وزیراعظم کو ای او بی آئی کی پنشن کم از کم 47 ہزار کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ پی آئی اے کی نجکاری حکومت کے لیے ایک لمحہ فکر ہے، حکومت نے نجکاری میں پی آئی اے کی قیمت 80 ارب رکھی تھی جبکہ سب سے زیادہ بولی 10 ارب کی آئی۔ ابن آدم کہتا ہے 80 ارب بہت کم ہیں، پی آئی اے کی مالیت 500 ارب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ابھی حال ہی میں ریجنٹ پلازہ ہوٹل 14 ارب 50 کروڑ میں فروخت ہوا ہے، اب وہاں گردے کا اسپتال قائم ہوگیا ہے۔ سلام کرتا ہے ابن آدم پروفیسر ادیب رضوی صاحب کو اس وقت گردے کے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں، عوام کو صاف پانی جو میسر نہیں ہے امراض بڑھ رہے ہیں، حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی وہ تو اس وقت اداروں کی رائٹ سائزنگ کرنے میں لگی ہے، وہ طب کے شعبے کو بڑا نقصان پہنچانے کی تیاری کرچکی ہے۔
ہومیوپیتھک اور طب کونسل کو ضم کرنے کے حوالے سے جو قوانین مرتب کیے جارہے ہیں ان میں سب سے بڑی خیانت شعبہ ہومیوپیتھی کے ساتھ کی جارہی ہے۔ جو سفارشات پیش کی گئی ان کے مطابق ہومیوپیتھک ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھ

سکتا اور نہ ہی کہلوا سکتے ہیں وہ صرف ہومیوپیتھک لکھیں گے جو کہ ہومیوپیتھی کے ساتھ اور ہومیو ڈاکٹرز کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ ابن آدم کہتا ہے کہ ایلوپیتھک طریقہ علاج والوں کو خوش کرنے کے لیے یہ قانون بنایا جارہا ہے۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج یہ سمجھتا ہے کہ طریقہ علاج پر ان کا راج ہے۔ قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی اور طب کونسل کا وجود 1965ء کے ایکٹ کے تحت وجود میں آیا تھا اُس وقت سے آج تک قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی نے کسی حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں لی یہ ادارہ اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے، ہم کسی حکومت پر بوجھ نہیں ہیں، میرے قارئین جانتے ہیں کہ مجھے میرے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کراچی سے خیبر تک قائد ہومیوپیتھی کا لقب دیتے ہیں، آج جب ہومیوپیتھی پر شب خون مارنے کی تیاری کی جارہی ہے تو کراچی سے خیبر تک تمام ہومیو ڈاکٹرز اور حکما متحد ہوچکے ہیں۔ شعبہ ہومیوپیتھی کی تمام پارٹیاں صرف ایک پوائنٹ پر متحد ہوچکی ہیں کہ ہمیں یہ قانون نامنظور ہے۔

ماضی میں جب ہم ڈاکٹر لکھتے تھے تو ایلوپیتھی طریقہ علاج والوں نے ہمارے لیے قانون بنوایا کہ ہم صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ لکھیں ہم نے اُس کو قبول کرلیا مگر اب تو سازش یہ ہے کہ ہم سے ہماری شناخت چھینی جارہی ہے جبکہ حکومت پر اصل بوجھ تو ایلوپیتھی ہے ہر حکومت بجٹ میں ان کے لیے اربوں روپے رکھتی ہے، کروڑوں کے اخراجات اور گرانٹ الگ ہے جبکہ ہومیوپیتھک اور طب کونسل نے آج تک بجٹ میں اپنا حصہ نہیں مانگا۔ میں صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف، چیف جسٹس صاحب اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ اس ناانصافی کو ختم کرنے کا اعلان کیا جائے اور سرکاری سطح پر شعبہ ہومیوپیتھی اور حکمت کو تسلیم کیا جائے اور تمام سرکاری اسپتالوں میں دونوں شعبے قائم کیے جائیں۔

پوری دنیا ہومیوپیتھی طریقہ علاج کو تسلیم کرتی ہے، پڑوسی ملک انڈیا میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، بھارت میں ہر دوسرا مریض ہومیوپیتھک علاج سے شفایاب ہوتا ہے۔ کورونا کے وقت ہزاروں لوگوں کو ہومیوپیتھک نے ہی بچایا تھا مگر افسوس کہ آج اس طریقہ علاج پر شب خون مارا جارہا ہے۔ آج بھی ملک کے عوام اس طریقہ علاج سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ علاج بالمثل ہے جبکہ ایلوپیتھک علاج بالمفید ہے۔ آپریشن کے سوا ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ہر مرض کا شافی علاج موجود ہے۔ الحمدللہ میں خود نیوکراچی کے علاقے میں 30 سال سے غریب عوام کا شافی علاج کررہا ہوں، پوری دنیا سے مریض مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور میں بغیر کسی فیس کے ان کو ادویات کے نام بتا دیتا ہوں اور جب وہ ٹھیک ہوتے ہیں تو مجھے دعائیں بھیجتے ہیں۔ آج کے دور میں مَیں ایک ہفتہ کی دوا کے 200 روپے لے رہا ہوں جبکہ اگر مریض کسی ایلوپیتھک کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس 5 ہزار کا نوٹ تو ہونا چاہیے اور اگر غلطی سے کسی بڑے اسپتال چلا گیا تو ایک لاکھ تو خرچ ہو ہی جائے گا۔ میرے ایک عزیز کا بدھ کو انتقال ہوگیا، وہ میری بیگم کے خالو تھے، مقامی ڈاکٹر نے اُن کی موت کی تصدیق کردی مگر ان کا بیٹا اور بیگم ان کو آغا خان لے کر چلے گئے وہاں موجود ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ابھی زندہ لگ رہے ہیں ان کو Ventilater پر لے کر جانا پڑے گا۔ انہوں نے اُن کو Vend پر ڈال دیا اور کہا کہ 3 لاکھ فوری جمع کرادیں، دو دن بل بنانے کے بعد گھر والوں سے کہا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سچا واقعہ ہے اور اس کے گواہ بھی موجود ہیں، نارمل ڈیلیوری کو یہ آپریشن کی طرف لے کر چلے جاتے ہیں ان کی اس لوٹ مار کے لیے حکومت قانون کیوں نہیں بناتی۔ ایمرجنسی میں اگر کوئی مریض آغا خان، لیاقت، ضیا الدین چلا جائے تو بغیر پیسے لیے ہوئے وہ مریض کو ہاتھ تک نہیں لگاتے، چاہے مریض مر ہی کیوں نہ جائے۔ یہ کون سی انسانیت ہے اس پر قانون کب بنے گا، صحت کے شعبے میں لوٹ مار کا بازار گرم پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ مار کے واقعات اخبارات اور سوشل میڈیا پر آتے رہتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ میرے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے اندر انسانیت موجود ہے اگر چند ایک غلط کام کررہے ہوں تو کہہ نہیں سکتا مگر 95 فی صد ہومیو ڈاکٹرز ایمانداری سے اپنے مریضوں کا علاج کرکے ان کو شفا فراہم کررہے ہیں۔