ڈونلڈ ٹرمپ: خوابوں کا تصادم

210

ٹرمپ کے انتخاب پر حسن ظرافت کے اس اظہارکے سوا کیا کیا جاسکتا ہے:

کچھ نہ کہا حفیظ نے ہنس دیا مسکرا دیا

ڈونلڈ ٹرمپ جمہوریت کا جملہ معترضہ ہیں۔ ان کی کامیابی پر جمہوریت کے یتامی کا منہ اور مسور کی دال ہم معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ٹرمپ پاپولرزم کے نمائندے ہیں جس میں جمہوریت کا بھاری بوجھ اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور اصولوں اور ضوابط سے بے نیاز ہوکر حکومت کی جاتی ہے۔ پاپولرزم کے شیدائی دفتر سے بستر تک اپنی رائے اور منشا کا بول بالا رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے دفتر میں مقابلہ امریکا کی روایتی پالیسیوں سے ہو یا بستر میں کسی پورن گرل سے۔ ویسے تو جمہوریت میں بھی ایک فرد اور گروہ کی حکومت ہوتی ہے لیکن کچھ جھجھک اور ستر پوشی کا اہتما م ہوتا ہے۔ پاپولرزم میں یہ تکلُفات روا نہیں رکھے جاتے۔ جمہوریت پر عدم اطمینان ہر جمہوری روایت کو دغا دے کر کسی بھی نامحرم کے ساتھ نکل پڑتا ہے۔ جمہوریت کی ناکامیوں اور پے درپے ناکامیوں نے دنیا میں جو ہیجان برپا کر رکھا ہے اب یورپ اور امریکا کے پاس بھی اس کے چال چلن پر نازیبا الفاظ کے سوا کچھ نہیں۔

امریکا کو نو آبادیاتی نظام کی اسیری سے نکال کر بھرپور ترقی دینے کا جو خواب دیکھا گیا تھا اس امریکی ڈریم نے دنیا بھر کے لوگوں کو امریکا کی طرف متوجہ کیا۔ اس خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے میں ایک صدی لگ گئی جس کے ساتھ ہی وہ کلچرل خوف بھی پیدا ہوگیا جو دوسرے معاشروں سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ بیسویں صدی کے وسط میں کسی بڑی گراوٹ سے بچنے کے لیے یورپین ڈریم متعارف ہوا۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے یورپی یونین تشکیل دی گئی۔ یورپی یونین کو بھی اب متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ بریگزٹ کی صورت برطانوی اپنی راہ لگ چکے ہیں۔ یہ برطانیہ میں پاپولرزم کا پہلا مظاہرہ تھا۔ ان دونوں خوابوں کی موجودگی میں اب عالمی سیاست میں چائنا ڈریم نے بھی راہ پائی ہے جس سے امریکن اور یورپین ڈریم مشکلات محسوس کررہے ہیں۔ امریکن ڈریم کا حال یہ ہے کہ گروسری سے لے کر طبی سہولتوں تک غریب عوام کی رسائی سے باہر ہیں۔ امریکا اب سرمایہ داروں اور مالدار افراد کے رہنے کی جگہ ہے۔ ٹرمپ کی خوبی یہ ہے کہ عام سیاست دانوں کے برعکس وہ ان خوابوں کا مختلف حل پیش کرتے ہیں۔

یورپین ڈریم کا جہاں تک تعلق ہے ٹرمپ کی کامیابی سے یورپ صدمے اور پریشانی سے دوچار ہے۔ ناٹو ایک بار پھر تذبذب اور کسی بھی فیصلے تک نہ پہنچ سکنے کے اس دائرے میں واپس پلٹ آیا ہے اپنے پچھلے دور حکومت میں جہاں ٹرمپ نے اسے دھکیل دیا تھا۔ ایسے وقت میں جب یورپی معیشتیں انحطاط کا شکار ہیں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہیں یورپی ممالک کو اب اپنے دفاع کی ذمے داری خود اٹھانا پڑے گی اور دفاع پر زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ یورپ اس وقت ابھرتے ہوئے دائیں بازو اور کنفیوزڈ بائیں بازو کے درمیان منقسم ہے اور اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ موجودہ یورپی قیادت دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے کمزور قیادت ہے جو ٹرمپ جیسے بجنگ آمد امریکی صدر کے مقابلے کی تاب نہیں رکھتی۔

ٹرمپ کی جیت سے روس کا غنچہ ناشگفتہ بھی کھل اٹھا ہے۔ ٹرمپ کی صورت روس کو خود امریکا کے اندر ایسا اتحادی میسر آیا ہے جسے جیتنے کے لیے روس نے سخت محنت کی ہے۔ روس کو امید ہے کہ اب وہ یوکرین کے مسئلے کو حل کرسکتا ہے، ناٹو کو کمزور کرسکتا ہے اور ناٹو کو اپنے اسٹرٹیجک پڑوس سے دور کرسکتا ہے۔

چینی ڈریم کو محدود کرنے کے معاملے میں ٹرمپ کی پالیسیاں بہت جارحانہ رہی ہیں اس لیے چین میں ٹرمپ کے آنے سے وہ خوشی نہیں ہوئی جوکریملن میں محسوس کی گئی۔ امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ براہ راست فوجی تصاد م کے مخالف ہیں۔ شمالی کوریا کے معاملے میں ان کی پالیسی اور معاہدے تک پہنچنے کا ان کا غیر روایتی انداز کسی بھی تبصرہ آرائی سے ماورا بات ہے، تو پھر کیا بیجنگ کے معاملے بھی وہ اپنی اس روایت کو دہرائیں گے؟ شاید نہیں۔ چین کا معاملہ بہت اندر تک جا کر امریکا کے قومی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ امریکن ڈیپ اسٹیٹ اتنی بڑی تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ ڈیپ اسٹیٹ یہ وہ حقیقی حکومت ہے جس کے پیچھے امریکا کی خفیہ ایجنسیاں، فوجی ادارے، نیشنل سیکورٹی ایجنسی، ایف بی آئی اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے کچھ عناصر ہیں۔ جب یہ کوئی پالیسی طے کر لیتے ہیں تو کانگریس، صدر اور عدالتوں میں سے کسی کو جرأت نہیں کہ وہ اختلاف کرسکیں۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ ایک استثنا ہیں۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے نظام کے خلاف جانے کی کوششیں کی تھیں۔ تاہم اداروں کی مضبوطی اس کی راہ میں مزاحم ہوگئی تھی۔

مسلم دنیا کا جہاں تک تعلق ہے ٹرمپ کی جیت اور کملا ہیرس کی شکست اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مسلمانوں کے لیے ٹرمپ امن کا پیامبر ہے اور نہ کملا امن کی دیوی۔ بائیڈن انتظامیہ ڈیمو کریٹس تھی۔ اس نے غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے۔ کملا جیت جاتی تو وہ اسی راہ پر چلتی۔ ٹرمپ کے معاملے میں مختلف بات اتنی ہے کہ وہ ڈیلیںکرنے پر یقین رکھتے ہیں، وہ یکساں اور مربوط راستوں پر نہیں چلتے اور کسی بھی سمت میں غیر متوقع قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ان کی یہ فطرت باقی دنیا کے لیے تو کوئی خواب بُن سکتی ہے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ القدس اور گولان کی پہاڑیوں کے معاملے میں انہوں نے اپنے پچھلے دور حکومت میں مسلم دشمنی کا بدترین مظاہرہ کیا تھا۔ جنگوں کے خلاف ان کے عزائم ممکن ہے فلسطین میں انہیں کسی ڈیل تک لے جائیں لیکن مسلمانوں کے لیے وہ یقینا کوئی اچھی ڈیل نہیں ہوگی۔

ٹرمپ کی آمد تہران کے لیے پریشان کن ہے۔ الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے کھل کر ایران کے خلاف بیان بازی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ووٹرز سے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کا وعدہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ محض انتخابی بیان بازی ہو لیکن یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ ٹرمپ ہمیشہ دیموکریٹس کی ان پالیسیوں کے ناقد اور ان پر حملہ آور رہے ہیں جن میں ایران کے بارے میں نرم روی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس صورتحال کا مقابلہ ایران اپنی اعتدال پسند لیڈرشپ جیسا کہ صدر اور نائب صدر کوآگے لا کر کرتا ہے۔ اس لچک سے ایران کا مقصد وقت حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے جوہری منصوبے کو عجلت سے تکمیل کے مراحل سے گزارسکے۔

ٹرمپ کی فتح کو امریکا کی اندرونی سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے جو بے انتہا تقسیم کا شکار ہے تو یہ ایک انتہائی اہم موڑ ہے۔ بہت سے اقدام بین الاقوامی معاملات پر اثرانداز ہوں گے۔ پولرائزیشن اور بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ مزید علاقائی بلاکس اور نئے اتحاد بنیں گے۔ بین الاقوامی نظام پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی خستگی اور خوابوں کا تصادم ٹرمپ کی قیادت میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ ایک نئے دلچسپ مرحلے میں۔