کراچی(رپورٹ: سید وزیر علی قادری) مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے 77سال گزر گئے اور افسوس کی بات ہے کہ اب تک کسی بھی لحاظ سے ملک نہ تو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بن سکا اور نہ ہی جس نعرہ پر یہ معرض وجود آیا تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ اور یہاں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوگا مگر افسوس اس سے ہٹ کر ہم نے استغفراللہ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ کرلی اور آج تک ہم اسی نظام میں اس کی حجت کو اور تاویل کے داستانوں کو پھیلا کر معاشی لحاظ سے مبتلا ہیں جس کو سود کہتے ہیں۔ جسارت نے پاکستان اور ایک اسلامی فلاحی رفاعی ریاست کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق کے یوم ولادت پر مقتدر شخصیات سے سوال کیا کہ ” ہم پاکستان کو اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کے مطابق کیوں تعمیر نہیں کرسکے؟” اس سلسلے میں جن شخصیات نے رائے دی ان میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، سندھ میں جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق( فرحان، بلدیہ عظمیٰ میں قائد حزب اختلاف سیف الدین ایڈووکیٹ، دعوۃ اکیڈمی کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد چنا ، سابق پروفیسر جامعہ کراچی ڈاکٹر پروفیسر اسحق منصوری، آزاد کشمیر کے رہنما تصور حسین موسوی اور ادیب و دانشور میر علی حسین امام شامل ہیں۔ لیاقت بلوچ بلوچ نے کہا کہ پاکستان اللہ کی بڑی نعمت اور 25کروڑ عوام کا آزاد ملک ہے۔ پاکستان انسانی صلاحیتوں ، زرخیز زمین اور قدرتی نعمتوں ومعدنیات سے نظریاتی، تہذیبی، اخلاقی اقدار سے دور ہورہا ہے۔ اور معاشی اعتبار سے بھی خوفناک بحران سے دوچار ہے۔ مفاد پرستی، بدعنوانی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور نفسا نفسی روگ بن گیا ہے اور قیام پاکستان کے خوابوں کی تعبیر عمل میں نہیں آرہی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آزاد وطن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر تحریک آزادی اور پاکستان کو مثالی ماڈل اسلامی فلاحی ریاست بنانیکا عہد کیا تھا۔ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ اور خودی کا عظیم پیغام دیا۔ قائد اعظم نے تحریک آزادی میں مسلسل اپنے اسی عزم کا اعلان کیا کہ پاکستان کا دستور قران ہے، سماجی و معاشی انصاف ویژن قرار پایا اور آئین و قانون کی فرمانروائی آزاد ریاست کا طرہ امتیاز ہوگا۔ عوام کے لیے آزاد عدلیہ انصاف کا ذریعہ اور ریاست نظام عوام کی فلاح کے لئے ہوگا۔ اسلامیان پاکستان کا بھی یہ ہی نظریہ بنا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق تعبیر ملک و ملت کا مقدر کیوں نہیں بنی؟ اس کی وجوہات کی طویل فہرست ہے لیکن چند ایک یہ ہیں کہ آزاد قوم کو ایک قوم بنانے کے لئے قومی ترجیحات کے تعین اور اس کی بنیاد پر اکھٹے رہنے نہیں دیا۔ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کے اصول نے لسانی، علاقئی، سیاسی، مذہبی تعصبات کی بنیاد پر قوم کو تقسیم کردیا گیا، قرن و سنت قومی وحدت، اتحاد و یکجہتی کی مضبوط بنیاد بن سکیں، اسے بحیثیت نظام حیات بنانے سے انحراف کرلیا گیا۔ آئین پہلے بنایا نہیں جو بنے وہ بار بار توڑ دئے گئے، 1973 کا دستور قومی متفقہ دستاویز ہے لیکن اس پر عمل کے بجائے بار بار کھلواڑ کیا جاتا ہے، عدلیہ کے آزاد وجود کو مقتدر بطقے قبول کرنے کو تیار نہیں، قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بدعنوانیوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو دھند لایا اور متنازعہ بنایا جات رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے اسلامی نظریہ کا ساتھ دیا۔ اللہ تعالی نے آزادی کی نعمت سے نوازا۔ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے اشرافیہ نے نہیں عوام نے ہی ازسرنو نظریاتی جنگ لڑنی ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق ( فرحان ) نے کہا کہ “زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن” بدقسمتی سے ہمارے وطن کو وہ قیادت میسر نہیں آئی جو مملکت خداد کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ویژن کے مطابق چلاتی۔جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں اپوزیشن لیڈرسیف الدین ایڈووکیٹ: جو پاکستان کا تصور علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیا تھا وہ تو دین کے مطابق ملک کو چلانے کا تھا۔ جس کی قیادت دلیر ہو، باعمل ہو، ایسی قیادت نہ ہو جو زاتی مفادات اور چند دنیاوی خواہشات کے لئے مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہی ختم کرنے کے درپے ہو۔ قران حکیم کی حکمرانی اور تمام ضابطے ، قوانین اسلامی شریعت کے حساب سے مرتب کئے جائیں اس کو ان قائدین کے دنیائے فانی سے جانے کے بعد یکسر اٹھا کر پھینک دیا گیا۔ پاکستان کا تصور شاعر مشرق نے دیا وہ قطعی غلامانہ نہیں تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ دین اسلام کیلئے جو خطہ لیا جارہا وہ قائم ہو۔ افسوس صد افسوس قائد اعظم کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ میرے پاس میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں اور دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ سیاستدانوں نے فوجی آمریت کو ہوا دینے کے لئے تمام راستے فراہم کئے ۔ حتی کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو کیبنٹ میں شامل کیا اور انہوں نے جو حشر کیا وہ سب سے سامنے ہے۔ اب تک جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ، اقراپروی، رشوت ستانی، بدعنوانی کے ریکارڈ توڑ دیے اور ملک کو ایسی نہج پر لے آئے کہ اس کی معیشت، معاشرت، تعلیم، صحت کوئی شعبہ ایسا نہیں جو صحیح سمت پر گامزن ہو۔ اس کی تازہ مثال موجودہ حکومت ہے جس کو عوام کی رائے کے برعکس ملک کا حکمران بنایا گیا اور قبضہ سچا دعوی جھوٹا کے مصداق پوری دنیا میں مذاق بن گیا۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جماعت اسلامی ان حالات میں قوم کو بیدار کرنے کے لئے میدان عمل میں ہے اور قوم سے یہ ہی توقع ہے کہ وہ اس کا ساتھ دے گی تاکہ ہر ہر شعبے میں اور ملک کی قیادت صحیح ہاتھوں میں آئے اور علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ ڈاکٹر شہزاد چنا نے کہا کہ حقیقت میں پاکستان بڑی قربانیوں، جدوجہد اور آزادی کے بعد حاصل کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہاں سے گورا انگریز تو چلا گیا، مگر وہ پیچھے کالے رنگ کا نمائندہ چھوڑگیا، جس کی وجہ سے گزشتہ77 سال میں پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبال اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے خوابوں کے مطابق تعمیر نہ ہوسکا اور ترقی بھی نہ کرسکا۔ ایک طرف ملک میں اقربا پروری، رشوت، بدامنی، لاقانونیت کی وجہ سے عدل و انصاف ناپید ہوگیا ہے تو دوسری طرف ملک کی ترقی اور خوشحالی کی رفتار میں رہی سہی کسر بدعنوان بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور وڈیرہ شاہی کے گٹھ جوڑ نے پوری کردی۔ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح کے فرامین پر نظام عدل قائم کرکے ملک میں طبقاتی اور نظام کے بجائے مساویانہ نظام عدل اور اسلامی تعلیمی نظام کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک کی ترقی و خوشحالی میں ایک سبب طبقاتی اور مغربی نظام تعلیم کا رائج ہونا بھی ہے۔ عالمی طاقتوں اور اغیار کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے موئثر حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ عوام میں شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ملک کو بانی پاکستان کی خوابوں کی تعبیر بنانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ملک میں اہل دیانتدار اور اچھی ساکھ کے لوگ منتخب ہوں اسی میں عوام کی بھلائی بھی ہے اور خوشحالی بھی۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا مقصد اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام بھی تھا۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے ہمیں حقیقی جدودجہد کرنا ہوگی اور عوام میں رائے عامہ ہموار کرکے ملک کے بد دیانت ٹولے سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری نے کہا کہ ہم پاکستان کو اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق اس لیے تعمیر نہیں کرسکے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان کے اصول اور ہدایات کے سراسر خلاف عمل کر رہے ہیں۔ ایمان نظم و ضبط اور عمل پیہم قائد اعظم کے اصول ہیں جن پر قائد اعظم پوری زندگی عمل کرتے رہے اور مشکل ترین حالات کے باوجود اپنی ایمان داری اور اصول کی پاسداری کے ذریعے پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا اور مخالفین کے تمام ہتھکنڈے ناکام و نامراد ہوگئے ۔ علامہ اقبال نے قوم کو شجاعت صداقت اور دیانت کا سبق دیا مگر پاکستان کے سیاستدانوں کی اکثریت اور بیوروکریسی ، ذرائع ابلاغ ، فوج اور عدلیہ تک بدعنوان رشوت اور خیانت میں سر سے پیر تک گرفتار ہیں ۔ ہم سب نے مل کر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کو چکنا چور کیا ہے ۔ تصور موسوی نے کہا کہ ہم نے قائد آعظم اور اقبال کو نہ خود سمجھا اور نہ ہی اپنی نسل کو ان کی سوچ فکر بتائی ہم تو ان دونوں شخصیات کا یوم پیدائش اور یوم وفات منانا ہی کافی سمجھتے ہیں جب ہم نے ان کے کردار و سوچ کو سمجھا ہی نہیں تو ان کے ویژن کے مطابق ملک کو ڈھالیں گے کیسے؟ یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمران احساس کمتری کا شکار ہوکر کبھی یورپ کا نظام نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی کیمونزم قوم کی بدقسمتی کے جس مقصد کے لیے قائد نے اس وطن کو حاصل کیا تھا دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اور قرآن و سنت کے مطابق ریاست کے عوام و خواص کو برابری کی بنیاد پر آزادانہ زندگی بسر کرنے کے لیے وہ سب تو اک خواب ہی رہا انگریز جاتے ہوئے ذہنی غلاموں کو ہمارے اوپر مسلط کر گے اور ایک صدی ہونے والی ہے انھوں نے پوری ریاست کو ہائی جیک کیا ہوا ہے اب تو عوام میں یہ امید ہی دم توڑ چکی ہے کہ یہ وطن قائد اعظم و اقبال کا وطن بن سکتا ہے۔ میر حسین علی امام نے کہا کہ اقبال بنیادی طور پر اسلامی فکر رکھتے تھے اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔قائد اعظم بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر تھے اور نواب بہادر یارجنگ سید سلیمان ندوی شبیر احمد عثمانی وغیرہ کے اسلامی تجاویز کو مانتے اور عملی جامہ پہنانے کے خواہاں تھے۔ مسلم لیگ میں وڈیروں جاگیر داروں اور ایسے پیروں مشائخ کا زور بڑھتا گیا جو گدی نشین ہونے کے ناطے سیاست پر قابض ہوگئے اور چند سال میں اقبال اور قائد اعظم کے افکار سے متاثر سیاست دان کے بجائے وڈیروں جاگیر داروں کی حکومت قائم ہوتی گئی۔ نتیجہ صاف ستھرے لوگ الگ ہوتے گئے کراچی حیدرآباد میں علم مذہب کی بنیاد پر مذہبی یا پڑھا لکھا لیڈر آتے رہے اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے رہے ضیا ء الحق نے ایم کیو ایم کی سرپرستی کرکے نوجوان نسل کو سامنے لایا جو توازن اعتدال قائم نہیں رکھ سکی اور وڈیروں جاگیر داروں کے گروپ میں ایک سے دوسرے میں تبدیل ہوتی رہی کیونکہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں جاگیرداری نظام کی حامی ہیں۔اس کھیل میں ایم کیو ایم کو آؤٹ کردیا گیا اور تیسری قیادت عمران کو لایا گیا۔ اس میں بھی جاگیر داروں کا ایک طبقہ شامل ہے اور پڑھے لکھوں کا بھی۔لیکن اسے یورپی مزاج انگریزیت کی بناء پر اور ملک دشمنی کی بنا پر ہرایا گیا۔ اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ عوام بہت مجبور ہے۔ بیوروکریسی طاقتور۔ اس لئے عوام اور عوامی نمائندوں کی حقیقی حکومت نہیں آسکتی ہے۔ جاگیرداری نظام ختم کرنے اور بیوروکریسی نظام تبدیل کرنے کے بعد ممکنہ تبدیلی آسکتی ہے۔غرض تمام ہی رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے اور من حیث القوم المیہ ہے کہ ہم علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسی عظیم ہستیوں کے خواب اور ان کی کاوشوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور آذادی کے صحیح اور حقیقی معنوں میں ثمرات نہ سمیٹ سکے۔