صحبت کے اثرات

168

حضور اقدسؐ کا پاک ارشاد ہے کہ مسلمان کے علاوہ کسی کے ساتھ مصاحبت اور ہم نشینی نہ رکھ اور تیرا کھانا غیر متقی نہ کھائے۔
اس حدیث پاک میں حضورؐ نے دو آداب ارشاد فرمائے، اول یہ کہ ہم نشینی اور نشست وبرخاست غیر مسلم کے ساتھ نہ رکھ، اگر اس سے کامل مسلمان مراد ہے، تب تو مطلب یہ ہے کہ فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ مجالست اختیار نہ کر، دوسرے جملے میں چوں کہ متقی کا ذکر ہے، اس سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، نیز اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ ایک حدیث میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ کافروں کے ساتھ بے ضرورت مجالست اختیار نہ کی جائے اور ہر صورت میں تنبیہ مقصود ہے، اچھی صحبت اختیار کرنے پر، اس لیے کہ آدمی جس قسم کے لوگوں سے کثرت سے نشست وبرخاست رکھا کرتا ہے، اس قسم کے آثار آدمی میں پیدا ہوا کرتے ہیں، اسی بنا پر، حضورؐ کا ارشاد ہے تیرے گھر میں متقیوں کے علاوہ داخل نہ ہوں، یعنی ان سے میل جول ہو گا تو ان کے اثرات پیدا ہوں گے، حضور اقدسؐ کا پاک ارشاد ہے کہ صالح ہم نشیں کی مثال مشک بیچنے والے کی ہے، اگر اس کے پاس بیٹھا جائے تو وہ تجھے تھوڑا سا مشک کا ہدیہ بھی دے دے گا، تُو اس سے خرید بھی لے گا اور دونوں باتیں نہ ہوں تو پاس بیٹھنے کی وجہ سے مشک کی خوشبو سے دماغ معطر رہے گا۔ ( اور فرحت پہنچتی رہے گی ) اور بْرے ساتھی کی مثال لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھنے والے کی ہے کہ اگر اس کی بھٹی سے کوئی چنگاری اڑ کر لگ گئی تو کپڑے جلا دے گی اور یہ بھی نہ ہو تو بدبو اور دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوا کرتا ہے، پس اچھی طرح غور کر لے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (مشکوٰۃ)

مطلب یہ ہے کہ پاس بیٹھنے کا اور صحبت کا اثر بے ارادہ رفتہ رفتہ آدمی میں سرایت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ آدمی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیا کرتا ہے، اس لیے پاس بیٹھنے والوں کی دینی حالت میں اچھی طرح سے غور کر لینا چاہیے، بددینوں کے پاس کثرت سے بیٹھنے سے بددینی آدمی میں پیدا ہوا کرتی ہے، روزہ مرہ کا تجربہ ہے کہ شراب پینے والوں کے، شطرنج کھیلنے والوں کے پاس تھوڑے دن کثرت سے اٹھنا بیٹھنا ہو تو یہ مرض آدمی کو لگ جاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے، حضور اقدسؐ نے سیدنا ابو رزینؓ سے فرمایا کہ میں تجھے ایسی چیز بتاؤں جس سے اس چیز پر قدرت ہو جائے جو دارین کی خیر کا سبب ہو؟ ا للہ کا ذکر کرنے والوں کی مجلس اختیار کر اور جب تو تنہا ہوا کرے تو جس قدر بھی تو کرسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دیتا رہا کر اور اللہ کے لیے دوستی کر اور اس کے لیے دشمنی کر۔ (مشکوٰۃ)

یعنی جس سے دوستی یا دشمنی ہو، وہ اللہ کی رضا کے واسطے ہو، اپنے نفس کے واسطے نہ ہو۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی مصاحبت اختیار کرو اس میں پانچ چیزیں ہونی چاہییں، اول صاحب عقل ہو، اس لیے کہ عقل اصل رأس المال ہے، بے وقوف کی مصاحبت میں کوئی فائدہ نہیں ہے، اس کا مآل کار وحشت اور قطع رحمی ہے، سفیان ثوریؒ سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ احمق کی صورت کو دیکھنا بھی خطا ہے، دوسری چیز یہ ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہوں کہ جب آدمی کے اخلاق خراب ہوں تو وہ عقل پر بسا اوقات غالب آجاتے ہیں، ایک آدمی سمجھ دار، بات کو خوب سمجھتا ہے، لیکن غصہ، شہوت، بخل وغیرہ اس کو اکثر عقل کا کام نہیں کرنے دیتے، تیسری چیز یہ ہے کہ وہ فاسق نہ ہو، اس لیے کہ جو شخص اللہ جل شانہ سے بھی نہ ڈرتا ہو اس کی دوستی کا کوئی اعتبار نہیں، نہ معلوم کس جگہ کس مصیبت میں پھنسا دے، چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ بدعتی نہ ہو کہ اس کے تعلقات سے بدعت کے ساتھ متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہے او راس کی نحوست کے متعدی ہونے کا خوف ہے، بدعتی اس کا مستحق ہے کہ اس سے تعلقات اگر ہوں تو منقطع کر لیے جائیں، نہ یہ کہ تعلقات پیدا کیے جائیں، پانچویں چیز یہ ہے کہ وہ دنیا کمانے پر حریص نہ ہو کہ اس کی صحبت سم قاتل ہے، اس لیے کہ طبیعت تشبہ اور اقتدا پر مجبور ہوا کرتی ہے اور مخفی طور پر دوسرے کے اثرات قبول کیا کرتی ہے۔
اثرات کا لینا آدمیوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ جس چیز کے ساتھ آدمی کا تلبس زیادہ ہوا کرتا ہے، اس کے اثرات مخفی طور پر آدمی کے اندر آجایا کرتے ہیں۔ حضور اقدسؐ سے نقل کیا گیا کہ بکریوں والوں میں مسکنت ہوتی ہے اور فخر وتکبر گھوڑے والوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان دونوں جانوروں میں یہ صفات پائی جاتی ہیں، اونٹ اور بیل والوں میں شدت اور سخت دلی بھی وارد ہوئی ہے۔
دوسرا ادب حدیث بالا میں یہ ہے کہ تیرا کھانا متقی لوگ ہی کھائیں۔ یہ مضمون بھی متعدد روایات میں آیا ہے، ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلاؤ اور اپنے احسان کا مومنوں کو مورد بناؤ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد دعوت کا کھانا ہے، حاجت کا کھانا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنے کھانے سے اس شخص کی ضیافت کرو جس سے اللہ کی وجہ سے محبت ہو، دفع حاجت کے کھانے میں حق تعالیٰ شانہ نے قیدیوں کے کھلانے کی بھی مدح فرمائی ہے اور قیدی اس زمانے کے کافر تھے۔

احادیث کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ ایک فاحشہ عورت کی محض اسی وجہ سے مغفرت ہوئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا اور بھی متعدد روایات میں مختلف مضامین سے اس کی تائید ہوتی ہے، نبی اکرمؐ نے تو قاعدہ اور ضابطہ فرما دیا کہ ہر جاندار میں اجر ہے۔ اس میں متقی غیر متقی، مسلم کافر، آدمی حیوان سب ہی داخل ہیں، لہٰذا احتیاج اور ضرورت کے کھانے میں یہ چیزیں نہیں دیکھی جاتیں، وہاں تو احتیاج کی شدت اور قلت دیکھی جاتی ہے، جتنی زیادہ احتیاج ہو، اتنا ہی زیادہ ثواب ہو گا، یہ کھانا دعوت اور تعلقات کا ہے، اس میں بھی اگر کوئی دینی مصلحت ہو، خیر کی نیت ہو تو جس درجے کی وہ خیر اور مصلحت ہوگی، اسی درجے کا اجر ہوگا، البتہ اگر کوئی دینی مصلحت نہ ہو تو پھر کھانے والا جتنا زیادہ متقی ہوگا اتنا ہی زیادہ اجر کا سبب ہوگا۔