دنیا میں بے شمار انسان رہتے بستے ہیں۔ ہر ایک کا مزاج دوسرے سے جدا ہے۔ ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ کچھ صلاحتیں لے کر پیدا ہوتا ہے، ان کو پروان چڑھاتا ہے اور انہی کی بنیاد پر انسانوں کی بھیڑ میں اپنی ایک الگ پہچان بناتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ گونا گوں پریشانیوں کی وجہ سے اپنی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، جس کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور جب وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے بہتر دیکھتے ہیں تو اس سے استفادہ کرنے کے بجائے اندھی تقلید میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ عقیدت انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی قوت کو ختم کر دیتی ہے اور وہ ذہنی طور پر غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ وہ دنیا کی تمام چیزوں پر فیصلہ حق اور باطل، جھوٹ اور سچ، اندھیرے اور روشنی کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا محبوب شخص کس بات کو غلط کہہ رہا ہے اور کس بات کو صحیح؟ اس میں ان کی سوچنے سمجھنے کی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پھر ایسے لوگوں کا حال ایک چلتے پھرتے ڈھانچے کے مانند ہو کر رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس میں اور دیگر جانداروں میں حد فاصل اور فرق امتیاز ’غور وفکر‘ اور ’تدبر‘ ہی تو ہے۔ اگر یہ بھی اس نے ختم کر دیا تو پھر اس کی انسانیت ہی کہاں باقی رہ جائے گی!
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان اور دیگر چیزوں کے درمیان حد فاصل ’عقل‘ ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ نعمت ہے جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اسے اشرف المخلوقات بنایا اور اسے غور وفکر کی بیش بہا نعمت عطا فرمائی۔ قرآن مجید میں اندھی پیروی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں تدبر و تفکر پر بہت زور دیا گیا ہے۔
شخصیت پرستی کیا ہے؟
شخصیت پرستی بنیادی طور پر ایک منفی طرز عمل ہے۔ جس میں انسان حق و انصاف اور عقل وفکر کے تمام پہلوؤں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں فیصلہ کسی شخصیت کی تقلید اور اس کی اندھی پیروی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی معاملے کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے، آنکھوں پر پٹی چڑھا کر کسی کی پیروی کرنا ہی شخصیت پرستی کہلاتا ہے۔ دینی مسائل میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر ’شخصیتوں‘ کے اقوال کو اختیار کرنا اور ان کو قرآن سنت کی میزان پر نہ تولنا انسان کے اعمال کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
جب لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو وہ سوچنے اور سمجھنے کی اپنی صلاحیتوں کو اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ پھر وہ ویسا ہی سوچتے ہیں اور ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ شخص ان کو دکھاتا ہے۔ شخصیت پرستی کے ایک معنیٰ یہ بھی ہیں کہ ہم ایک طرح سے دوسروں کو خود سے بہتر قرار دیتے ہیں اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے ساتھ مشروط کر لیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ اور سمجھ کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی مرضی و احکام کے مطابق چلتے ہیں۔
شخصیت پرستی حقیقت میں ’شرک‘ کی ابتدائی سیڑھی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی ابتدا شخصیت پرستی سے ہی ہوئی ہے۔ گزشتہ اقوام میں جب کوئی نبی یا کوئی معزز شخص دنیا سے کوچ کر جاتا تھا تو ان کے پیروکار اس کی یاد میں تصویریں اور مجسمے بناتے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی تعلیمات کو بھلا کر صرف انہی مجسموں کی پرستش کرنے لگے تھے۔ قرآن مجید میں سورۂ نوح میں قوم نوح کے جن معبودوں کا تذکرہ آیا ہے: یعود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ، صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ ان کی قوم کے اولیاء و صالحین اور بزرگوں کے نام ہیں۔ ان کی وفات کے بعد شیطان نے انھیں بہکا کر ان کی پرستش میں مبتلا کر دیا تھا۔ (صحیح بخاری)
شخصیت پرستی کے اسباب
شخصیت پرستی کی ایک بڑی وجہ ’غلو‘ ہے۔ اسے اسلام میں سخت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی شخص کی اتنی تعریف کرنا یا اس کی اتنی مذمت کرنا جس کی وہ مستحق نہ ہو، غلو کہلاتا ہے۔ مثلاً نصرانیوں نے حضرت عیسیؑ کے معاملے میں اتنا غلو کیا کہ انھیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’’اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جائو اور اللہ پر حق کے بجز کچھ نہ کہو۔ مسیح ابن مریم تو اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘‘۔ (النساء: 171)
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’آپ کہہ دیجیے، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہش کی اتباع نہ کرو، جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور پہلے سے بہتوں کو بہکا چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں‘‘۔ (المائدہ: 77)
شخصیت پرستی کی ایک دوسری بڑی وجہ دین سے عدم واقفیت ہے۔ ہمارے سماج میں، خاص طور پر مسلمانوں میں دین کی بہت سرسری معلوما ت ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ ممکن نہیں ہے، چنانچہ وہ کسی شخصیت کو اپنا مقتدیٰ بنا لیتے ہیں۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس شخصیت سے استفادے کے بجائے اس کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور پھر یہ تقلید دھیرے دھیرے دین کی تقلید کے بجائے شخصیت کی تقلید اور دین تبلیغ کے بجائے شخصیت اور اس کی ترویج و اشاعت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔