ٹرمپ!! گورباچوف یا کینیڈی؟

288

ڈونلڈ ٹرمپ ایک جانگسل جدوجہد کے بعد دوسری بار امریکا کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ سفر آخری مرحلے میں سیاسی جدوجہد اور مزاحمت تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کی طاقتور ترین اسٹیبشلمنٹ کے نشانے پر آنے اور ان کی طرف سے سرخ دائرے میں آنے کی وجہ سے ٹرمپ کی واپسی کا سفر خونیں اور اعصاب شکن ہو کر رہ گیا تھا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ٹرمپ ایک غیر نصابی کردار بن کر رہ گیا تھا۔ اس کی بہت سی وجوہات میں ٹرمپ کا بیرونی دنیا میں امریکا کی جنگوں میں شرکت کی مستقل پالیسی کی مخالفت تھا۔ امریکا جیسے ملک میں جہاں بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کا سارا دھندہ ہی جنگ پر چلتا ہے ٹرمپ کی یہ سوچ آگ سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ ایک ذہین اور تجربہ کار کاروباری کی طرح ٹرمپ کو یہ احساس تھا جس عرصے میں امریکا نے خلیج اور افغانستان کے محاذ کھولے رکھے اسی دوران چین نے سرجھکا کر معاشی عروج حاصل کیا اور وہ تجارت کی دنیا میں امریکا کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگیا۔ دنیا کی ہر ڈیپ اسٹیٹ کی طرح امریکی مقتدرہ کو بھی جنگوں کی لت پڑچکی تھی اور اس لیے وہ ٹرمپ کی جنگ مخالف سوچ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئی۔ یوں ٹرمپ دوسری بار انتخابات ہار گئے مگر ٹرمپ نے اس شکست کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا موقف امریکا کی نئی نسل تک پہنچانے میں کامیاب رہے تھے مگر انہیں ہیر پھیر کے ذریعے شکست سے دوچار کر دیا گیا۔ اسی ردعمل میں کیپٹل ہل کا پرتشدد واقعہ رونما ہوا جو امریکا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔ یہ واقعہ ٹرمپ کے نٹ بولٹ کسنے کے لیے ایک بہانے اور جواز کے طور پر استعمال ہوا۔ ٹرمپ کو جس انداز سے وائٹ ہائوس سے نکال باہر کیا گیا اس میں ایک تکبر، انانیت اور تضحیک کا پہلو نمایاں تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ ڈیپ اسٹیٹ نے ٹرمپ کو نفرت کی حد تک ناپسندکرنے کا راستہ چنا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی بیوی کی کردار کشی کے لیے امریکی سرمایہ کاروں نے میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا۔ ان کو وائٹ ہائوس سے نکالے جانے پر ایک مزاحیہ ویڈیو کو خصوصی شہرت ملی جس میں ٹرمپ اپنی شکست کو تسلیم نہ کرکے قوم سے خطاب کر رہے ہیں اور اچانک سیکورٹی کا عملہ آکر ان کو میز اور کرسی سمیت چلاتا ہوا دفتر سے باہر چھوڑ کر آتا ہے اور ٹرمپ چلتی ہوئی کرسی اور میز کے ساتھ تقریر کر رہے ہیں۔ یہ ٹرمپ بیتی پاکستانیوں کو اپنی اپنی اور دیکھی بھالی سی لگے تو یہ محض خیال آرائی اور نظر کا دھوکا ہو سکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کے سرمایہ داروں نے ٹرمپ کو امریکا کے مستقبل کے سیاسی منظر سے غائب کرنے کے لیے میڈیا کو وقف کردیا۔ بیانیہ سازی کی صنعت کو فروغ دیا گیا اور اس میں ٹرمپ کی کردار کشی اور ان کی بیوی سے علٰیحدگی کی کہانیوں سمیت لاتعداد افسانے پھیلائے گئے۔ اس ساری مہم کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی نہ لائی جا سکی۔ ٹرمپ کی مقبولیت اگر بڑھنے بھی نہ پائی مگر ان کا ووٹر اور حمایتی پروپیگنڈے کے طوفان سے ایک ذرہ متاثر نہ ہوا۔ یہاں تک جوش وجذبے کا شکار ایک امریکی شہری نے امریکا کے وسیع تر مفاد میں ٹرمپ پر گولیاں چلا کر کام تمام کرنے کا راستہ بھی چنا مگر گولی ٹرمپ کے کان کو چھو کر گزر گئی اور سخت جان ٹرمپ مُکا لہراتا ہوا عوام کے درمیان کھڑا رہا۔ امریکا کا سسٹم ٹرمپ کو رخصت کرکے سوتا رہا مگر امریکا کا نوجوان اور حامی طبقہ انہیں مائنس سے پلس کرکے کام پر جاتا رہا۔ یہاں تک ٹرمپ کو مائنس کرنا آسا ن نہیں رہا اور شاید سسٹم نے اس سے آگے حجاب ختم نہ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی کیونکہ جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے ردعمل نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ امریکا دوبارہ اس انداز کے پرتشدد مظاہروں اور ردعمل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

جوبائیڈن ایک کمزور امریکی صدر تھے۔ جنہیں یہ خیال بھی نہ رہتا کہ ان کے ساتھ کھڑی خاتون ان کی بیوی نہیں نائب صدر کملا ہیرس ہیں مگر وہ اپنائیت کے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر چل پڑتے اور کملا ہیرس کھسیانی ہو کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیتیں۔ بائیڈن جیسے کمزور صدر سے بھی امریکی اسٹیبشلمنٹ کی تشفی نہیں ہورہی تھی تو انہوں نے بائیڈن کو جو ابھی بھی مضمحل قویٰ اور ڈوبتی ہوئی یادداشت کے ساتھ ایک باری اور لگانے کے لیے تیار تھے نرم بغاوت کے ذریعے منظر سے غائب کر کے کملا ہیرس کی صورت میں ایک کمزور ترین کردار کو آگے کر دیا۔ اس تبدیلی میں امریکی مقتدرہ کی براہ راست حکمرانی کی خواہش واضح طور پر جھلکتی تھی مگر ٹرمپ واقعتا دنیا بھر میں اشارہ ابرو سے اتھل پتھل کرنے والی امریکی مقتدرہ کے لیے غیر نصابی کردار ثابت ہو رہے تھے کیونکہ وہ مائنس ہونے سے مسلسل انکاری تھی۔ آخر کار ٹرمپ نے امریکی رائے عامہ کی مدد سے مقتدرہ کی چالوں اور بیانیوں کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ یہاں سے ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک نیادور شروع ہو رہا ہے۔

پہلا سوال تو یہی ہے کہ امریکی مقتدرہ اپنے ہاتھوں معتوب اور مصلوب ٹرمپ کو کس حد تک اسپیس فراہم کرے گی؟ امریکی مقتدرہ نے چار سال کا عرصہ ٹرمپ کو امریکا کا ’’میخائل گورباچوف‘‘ ثابت کرنے میں صرف کیا۔ گویا کہ ایک ایسا کردار جس نے سوویت یونین کے انہدام کے عمل اور منزل کو بہت آسان بنادیا تھا۔ وہ ٹرمپ کو امریکا کے عالمی دبدبے اور طاقت کے لیے ایک شرِمجسم کے طور پر پیش کرتے رہے انہیں صدر پیوٹن کے دوست کے طور پر مشہورکرنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما تھی۔ دنیا کے ہر ملک میں اپنی پسند کا نقشہ پلک جھپکتے ہی تشکیل دینے والی امریکی مقتدرہ اپنے ملک میں پہلی بار سیاسی منظر تشکیل نہ دے سکی۔ ایسا سابق صدر کینیڈی کے وقت بھی ہوا تھا اور پھر صدر کینیڈی قتل ہوگئے تھے۔ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ اور یوکرین کی جنگوں کو ختم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے مگر جنگیں شروع کرنے اور چاہنے والے آج بھی ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔

روسی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین ویمتری میدویدف جو اپنے متنازع بیانات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں نے تو ممکنہ منظر نامے کو یوں بیان کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے جنگوں کو ختم کرنے پر اصرار کیا تو ان کا انجام صدر کینیڈی جیسا ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تھکا ہوا ٹرمپ ’’میں ایک معاہدے کی پیشکش کروں گا اور میرے فلاں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں‘‘ جیسے جملے بولنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا اور وہ بھی اقتدار میں آکر تمام قوانین کی تعمیل پر مجبور ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس رائے یہ ہے کہ ٹرمپ یوکرین کی جنگ کو روکنے میںکامیاب ہوجائے گا کیونکہ یوکرین کی جنگ ہی وہ گنگا جمنا تھی جس میں امریکی مقتدرہ غوطہ لگانے کی خواہش میں نہ صرف ٹرمپ سے نجات کے لیے کوششیں کرتی رہی بلکہ کئی اور ملکوں کو بھی سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل بیٹھی۔ امریکا میں یوکرین کے سابق سفیر اولیگ چیمیجر نے بھی چند ہی روز قبل اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ٹرمپ کی جیت سنگین خطرات کا باعث بنے گی کیونکہ ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ روس کو شکست دینے کے لیے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ ٹرمپ اور اس کی ٹیم کو یقین ہے کہ روس جیت رہا ہے اس لیے وہ اس برمودہ تکون میں جھونکنے کے لیے امریکی وسائل کا استعمال نہیں کریں گے۔ یوں ٹرمپ کو جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی صورت میں تنی ہوئی رسی کا سفر درپیش ہے۔