منیر نیازی نے کہا ہے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
ہمیں نہیں معلوم منیر نیازی کی پوری زندگی کو بے ثمر کس نے کیا اور ان کی عمر کو کس نے ان سے پوچھے بغیر بسر کر ڈالا۔ لیکن پاکستان کے تاریخی تجربے کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جرنیلوں اور قوم کے باہمی تعلق پر اس شعر کا کامل اطلاق ہوتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستانی جرنیل قوم کی پوری زندگی کو کھا گئے ہیں اور وہ قوم کی 75 سالہ زندگی کے کم و بیش 70 سال ہڑپ کرگئے ہیں۔ پاکستانی جرنیل قوم کا نظریہ کھا گئے، آدھا پاکستان کھا گئے، جرنیل پاکستان کی سیاست کو کھا گئے، قوم کی آزادی کو کھا گئے، قوم کی زبان کو کھا گئے، قوم کی سیاست کو کھا گئے، قوم کے عدل کو کھا گئے، قوم کے آئین کو نگل گئے، قوم کے قانون کو ہضم کر گئے، قوم کی سیاسی جماعتوں کو گھول کر پی گئے۔ جرنیلوں نے انتخابات کو مذاق بنادیا۔
قوموں کی زندگی میں نظریہ کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے، یہ نظریہ تھا جس نے پاکستان کو خلق کیا، یہ نظریہ تھا جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا، یہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو قوم میں ڈھالا، اسلام تو خدا کا دین ہے، انسانی تاریخ میں انسانی ساختہ نظریات نے بھی کمالات دکھائے ہیں، سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا مگر اس نظریے نے روس اور چین میں انقلابات برپا کردیے، ان انقلابات نے روس کو عالمی طاقت بنایا، روس کے نظریے نے دنیا کے درجنوں ملکوں میں انقلابات برپا کیے، چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے تو اپنے نظریے کی وجہ سے، اسرائیل کی اوقات ہی کیا ہے؟ اس کا رقبہ صرف 22 ہزار مربع کلو میٹر ہے، مگر یہودیت اور صہیونیت نے ایک نظریے کی حیثیت سے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنایا ہوا ہے، اسرائیل کی آبادی صرف ایک کروڑ ہے، مگر اسرائیل کے نظریے نے ملک میں 92 فی صد لوگوں کو خواندہ بنایا ہوا ہے، اسرائیل کے نظریے نے ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP کو 510 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچایا ہوا ہے، اسرائیل کی برآمدات 72 ارب ڈالر ہیں، اسرائیل کے نظریے نے عبرانی جیسی مردہ زبان کو زندہ کرکے کھڑا کردیا ہے اور اسرائیل میں ساری تعلیم عبرانی زبان میں دی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے پر پاکستان کا رقبہ 8 لاکھ مربع کلو میٹر ہے، ہماری آبادی 24 کروڑ ہے۔ مگر ہمارے جرنیلوں نے قوم کا یہ حال کیا ہوا ہے کہ ہماری مجموعی قومی پیداوار یا GDP صرف 375 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ہماری برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں۔ ملک میں خواندگی کی شرح 60 فی صد ہے اور ایک یہ تماشا بھی موجود ہے کہ جو لوگ صرف دستخط کرسکتے ہیں ہم ان کو بھی خواندہ کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے کبھی ملک میں اسلام کو موثر ہی نہیں ہونے دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی، جنرل یحییٰ کی عیاش طبیعت آدھا پاکستان نگل گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک کو لبرل بنانے کے لیے دن رات ایک کردیے، بلاشبہ جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلام کی بات کی مگر ان کا اسلام سیاسی تھا چنانچہ انہوں نے اسلام کا نام لے کر صرف عوامی ہمدردی حاصل کی ورنہ پاکستان میں اسلام جہاں تھا وہیں رہا۔ اسرائیل کے قومی اتحاد اور یکجہتی میں جہاں یہودیت اور صہیونیت کا بنیادی کردار ہے وہیں اسرائیل کی وحدت اور یکجہتی میں عبرانی زبان کا بھی بنیادی کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بعد پاکستان کو اردو زبان کی صورت میں ایک بہت بڑی نعمت عطا کی تھی۔ اردو عبرانی سے ہزار گنا بڑی زبان ہے اردو تفسیر کی زبان ہے۔ اردو حدیث کی زبان ہے، اردو سیرت کی زبان ہے، اردو فقہ کی زبان ہے، اردو شاعری کی زبان ہے، اردو ناول اور افسانے کی زبان ہے، اردو میں طب اور انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی رہی ہے، اردو قوم کو متحد کرسکتی تھی، قوم کو ہم آہنگ کرسکتی تھی مگر جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے اردو کو آج تک سرکاری زبان نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی زندگی میں ’’پاکستانیت‘‘ نایاب ہے۔ قوم پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، مہاجر اور سرائیکی میں بٹی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے حکمرانوں نے ایک مردہ زبان کو زندہ بنادیا اور پاکستان کے جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاسی رہنما اردو جیسی زندہ زبان کو مردہ بنائے ہوئے ہیں۔
سیاست کی عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست دان اپنی قوتِ نمو کے تحت پروان چڑھتے ہیں مگر پاکستان کے بدبخت جرنیلوں نے جی ایچ کیو کو سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری بنایا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے زیر سایہ پروان چڑھے، میاں نواز شریف کو جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے گود لیا۔ الطاف حسین کو جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین بنایا، عمران خان بھی جرنیلوں کی پیداوار ہیں۔ شیخ رشید خود کو گیٹ نمبر چار کی پیداوار کہتے ہیں۔ شہباز شریف جنرل عاصم منیر کے اشارے پر ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کے اکثر سیاست دان اور سیاسی جماعتیں جعلی ہیں۔ بدقسمتی سے جرنیل سیاست دانوں کی آزادانہ روش کو پسند نہیں کرتے، جہاں کوئی سیاست دان سر اٹھاتا ہے اس کا سر کچل دیا جاتا ہے۔ جرنیلوں کے پیدا کردہ سیاست دانوں کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھٹو صاحب بڑے سیاست دان تھے مگر جب تک وہ زندہ رہے انہوں نے کبھی پیپلز پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل ہے، شریف خاندان کبھی پارٹی میں انتخابات نہیں کراتے۔ عمران خان نے پارٹی میں انتخابات کرائے مگر وہ انتخابات ایک مذاق تھے۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے کبھی جمعیت علمائے اسلام کے اندر جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ ملک میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت جمہوری نہیں ہے۔
آئین قوم کی مقدس دستاویز ہوتا ہے مگر جرنیلوں نے آئین کو کھیل بنایا ہوا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں اسے معطل کردیتے ہیں جب تک چاہتے ہیں اسے غیر موثر بنادیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں۔ اس میں من مانی ترامیم کرادیتے ہیں۔ جنرل ایوب آئے تو انہوں نے 1956ء کا آئین معطل کرایا۔ جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین کو معطل کیے رکھا اور اب جنرل عاصم منیر نے ڈنڈے کے زور پر 26 ویں آئینی ترمیم کرا ڈالی ہے۔
سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے سہارے چل سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، مگر ہمارے جرنیلوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو اپنی باندی بنایا ہوا ہے۔ جسٹس منیر نے ملک کے سیاسی نظام پر پہلا حملہ کیا۔ جنرل ضیا الحق نے عدالت عظمیٰ کے ذریعے ایک جھوٹے الزام کے تحت بھٹو کو پھانسی کی سزا دلوائی اور اب جنرل عاصم منیر نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرادی ہے۔ ایسا اس لیے کرایا گیا ہے تاکہ ججوں کو آسانی کے ساتھ قابو کیا جاسکے۔ عدالت عظمیٰ کے دس بارہ جج ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو باقی ججوں کے ذریعے من مانے فیصلے کرالیے جائیں۔ خیر سے فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت بھی تین سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔ یہ بھی جنرل عاصم منیر کا احسان ہے ورنہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت 50 سال بھی ہوسکتی تھی۔
دنیا بھر میں انتخابات کے نتائج کو قوم کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے اور ساری دنیا اس فیصلے کے آگے سر جھکاتی ہے مگر ہمارے جرنیل قوم کے فیصلے پر تھوک دیتے ہیں۔ جنرل یحییٰ نے 1970ء میں قوم کے اکثریتی فیصلے پر تھوک دیا اور ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ خیر جنرل یحییٰ تو عورت باز اور شرابی کبابی تھا مگر جنرل عاصم منیر جو خیر سے ’’سید‘‘ بھی ہیں اور ’’حافظ‘‘ بھی مگر اس کے باوجود 2024ء کے انتخابات کے نتائج کو یکسر بدل کر رکھ دیا گیا۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مریم نواز پی ٹی آئی کے امیدواروں سے شکست کھا گئے تھے مگر انہیں فارم 47 کے ذریعے جتادیا گیا۔ اقبال یاد آگئے جنہوں نے فرمایا ہے۔
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو