فرمان ربی ہے جو خوش خبری اور وعید کا مجموعہ ہے کہ جو ذرا برابر بھی نیکی کرے گا یا ذرا برابر بھی بدی کرے گا دیکھ لے گا۔ خیر و شر پر مبنی سمجھی جانے والی 26 ویں آئینی ترمیم کو جہاں ملک بھری تنقید شدید کا سامنا ہے وہاں اس میں خوش آئند شق بھی ہے۔ مگر بات ہے عمل کی وماتوفیقی الاباللہ۔
آئین کی 18 ویں ترمیم کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث اور متنازع ہونے والی حالیہ 26 ویں آئینی ترمیم کا سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ اس کی شق سعد میں تحریر ہے کہ سود جو اللہ سے جنگ جیسا جرم ہے کو ملک سے لازماً 2028ء تک ختم کردیا جائے یوں یہ حکومت اپنی معیاد پوری کرنے سے قبل ہی اس جنگ سے ملک اور قوم کو نجات دلا کر ثواب بھی لوٹ سکے گی، 26 ویں آئینی ترمیم کے روح رواں ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول زرداری تھے تو ثواب مقتدرہ کے سب سے زیادہ حقدار وہ ہی ہوں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دو بڑے کارنامے تھے، ایک قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر ربّ کی خوشنودی کا ایسا سامان کیا کہ ایک مفکر اسلام کے بقول بھٹو کی یہ نیکی اُس کو جنت میں لے جانے کو کافی ہوگی اور انہوں نے اس کے عواقب و نتائج کی پروا کیے بغیر یہ ایسا کارنامہ انجام دیا کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور قادیانیت کی تلملاہٹ، روز محشر تک جاری رہے گی۔ اب اگر بلاول زرداری کی حسب ترمیم اس سود سے نجات دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو بھٹو گھرانے کا یہ دوسرا بڑا کارنامہ رب کی رضا کا ہوگا۔
یہ کام آسان نہیں، سود خور یہودیوں کی جان اس توتے میں ہے اور یوں رکاوٹ بھی ہزار میں کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان اور سودی نظام اپنے ہی نظریہ سے اعلان جنگ ہے۔ سو جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سمیت 88 فریقوں نے وفاقی شریعت عدالت میں 30 جون 1990ء کو درخواست دی کہ اس کو ختم کیا جائے کا حکم دیا جائے۔ 1991ء میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا جس نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا جس نے بھی شریعت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے جون 2000ء تک عمل درآمد کا حکم دیا۔ عمل درآمد تو نہ ہوا۔ پرویز مشرف کی آمد ہوگی تو اُس بدبخت حکمراں اس عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کردی اور مقدر کی ماری عدالت نے 24جون 2002ء کو شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کردیا اور سود کی تشریح کا مجرب حیلہ اپناتے ہوئے مقدمہ واپس شریعت عدالت کو بھجوادیا اور 2002ء سے 2013ء تک مقدمہ کی سماعت نہ ہوسکی اس دورانیہ میں وفاقی شریعت عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری کرکے چلے گئے اور پھر 28 اپریل 2021ء تک شریعت عدالت کا فیصلہ آیا۔ 1990ء سے 2021ء تک یہ مقدمہ حیلہ سازی کا شکار کیا جاتا رہا۔
شریعت عدالت کے جج صاحبان جسٹس محمد نور مسکاتری، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے ماہ رمضان کی مقدس گھڑیوں میں فیصلہ سنایا کہ وفاقی حکومت اللہ اور اس کے رسول سے جنگ بند کرے اور سود کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دے کر واضح کیا کہ بینکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد وصولی سود ہے جو اسلام، قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف ہے سود کے لیے سہولت کاری والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دے کر اس سال 2021ء کے ماہ دسمبر تک تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی ہدایت کردی۔ اور حکومت کہ اس موقف کو رد کردیا گیا کہ سود سے پاک نظام سے معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ شریعت عدالت نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سود کی تمام صورتیں ممنوع ہیں ملکی قوانین میں جہاں سود کا لفظ آتا ہے اُسے ختم کیا جائے اور یکم جون 22ء سے سود لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ان تمام قوانین میں ترمیم کرے، عدالت سمجھتی ہے کہ سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا تاہم ڈیپازٹ فوری طور پر سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اسٹرٹیجک پروگرام کے مطابق 30 فی صد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہوچکی ہے۔ چنانچہ اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے مکمل نفاذ کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہے اس لیے حکومت 31 دسمبر 2027ء تک تمام سودی نظام ختم کرے، عدالت کہ اس فیصلہ کا جو 320 صفحات پر مشتمل ہے کہ ملک بھر میں سراہا گیا۔ اب 26 ویں ترمیم میں اس مدت معیاد میں مزید ایک سال کا اضافہ کرکے 2028ء میں لازماً سود کا خاتمہ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ بلاول زرداری جس طرح تم نے 26 ویں ترمیم کی منظوری میں سردھڑ کی بازی لگادی سود کے خاتمے میں ربّ کی رضا اس سے بڑھ کر کردار ادا کرکے تاریخ میں امر ہوجائیں اور اپنے نانا بھٹو کے قادیانی کو اقلیت قرار دینے جیسی جرأت کا مظاہرہ کرکے خاندان کی روایت کو برقرار رکھیں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔