ٹرمپ بائیڈن ٹرمپ ، فرق کیا ہوا

233

امریکی صدر کے انتخاب کے لیے تمام 50 ریاستوں میں ہونے والی پولنگ کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار انتخابی معرکہ جیت لیا ہے اور وہ امریکا کے 47 ویں صدر بن گئے ہیں، صدارتی الیکشن میں امریکی کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی ری پبلکنزنے اکثریت حاصل کر لی۔ری پبلکنز نے 100 رکنی ایوان میں 52 نشستوں کے ساتھ برتری حاصل کرلی ہے جب کہ 41 نشستوں پر ڈیمو کریٹس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی کامیابی کے بعد خطاب میں کہا کہ سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے، ایک بار پھر امریکا کو عظیم، محفوظ، مضبوط اور خوشحال بنانے کا وقت آگیا،کوئی نئی جنگ شروع نہیں کروں گا بلکہ جنگوں کو ختم کروں گا، یہ بڑا اہم اعلان ہے، اگرچہ ان کے دور میں طالبان کی امارت اسلامیہ سے معاہدے کے بعد امریکی افواج افغانستان سے نکل گئی تھیں اور افغانستان میں امریکا کی براہ راست جنگ بند ہوگئی تھی لیکن امریکی عالمگیریت کی خواہش نے اسے افغانستان میں اب بھی بالواسطہ اُلجھا رکھا ہے اور اب جو بھی امریکا چاہتا ہے اس کے پروکسی افغان حکومت سے اُلجھ رہے ہیں۔ یقینا افغانستان سے امریکی افواج نکالنے سے امریکی ٹیکس دہندگان کی کچھ رقم بچ رہی ہوگی لیکن صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت میں فلسطینیوں کے خلاف امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے بے دریغ اس جنگ میں جھونک دیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اسرائیل کی اندھی مدد سے دستکش ہوجائیں گے،اور کیا وہ اسرائیل کے بارے میں بین الاقوامی اداروں کی قراردادوں پر عمل کرکے اسے فلسطینیوں کے علاقے خالی کرنے کو کہیں گے؟انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا نئی جنگیں نہیں شروع کرے گا اس پر یقین کرنے کی خواہش کے باوجود یقین نہیں آتا، جو ملک دنیا کے سو ممالک میں جنگوں میں الجھا ہوا ہو اوردرجن بھر ملکوں میں براہ راست جنگ میں مصروف ہو وہ اپنی خو کیسے بدلے گا۔ امریکی صدر نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ امریکا کو درپیش تمام مشکلات کو حل کر دوں گا، ٹیکس کم کروں گا، عوام کے حقوق کے لیے لڑوں گا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے سربراہان مملکت نے صدارتی انتخاب پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہوں،ڈونلڈ ٹرمپ کو جہاں دنیا بھر سے جیتنے پر مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے، وہیں کریملن کے ترجمان ڈمٹری پیسکو نے صحافیوں کو بتایا کہ نو منتخب امریکی صدر کے اقدامات کو دیکھا جائے گا، صدر ولادیمیر پیوٹن کا انہیں مبارکباد دینے کا کوئی امکان نہیں۔ امریکا یوکرین میں تنازع کو ختم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن وہ اس مسئلے کو ہوا دینے والا ملک بھی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کچھ سخت بیانات بھی دیے ہیں تاہم انہوں نے عالمی سطح پر امن کی خواہشات اور پرانی جنگوں کو جاری رکھنے کی بنیاد پر ہونے والی سیاست کو ختم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ادھر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایکس پر پیغام میں دوسری بار صدر منتخب ہونے پر ٹرمپ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’عالمی معاملات میں ان کی ’طاقت کے ذریعے امن‘ کی سوچ کو سراہتا ہوں یہی وہ اصول ہے جو یوکرین میں امن کے قیام میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ ادھر افغانستان میں طالبان حکومت نے محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے، افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کے مطابق امارت اسلامی افغانستان کو امید ہے اگلی امریکی انتظامیہ حقیقت پسندانہ اقدامات کرے گی۔ امید ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں واضح پیش رفت ہوگی اور دونوں ممالک باہمی روابط کی روشنی میں تعلقات کے نئے باب کا آغاز کر سکیں گے۔توقع ہے ٹرمپ خطے اور دنیا خصوصاً غزہ اور لبنان میں موجودہ جنگ کے خاتمے کے لیے تعمیری کردار ادا کریں گے۔ عالمی رہنماؤں کے بیانات تو یہ ہیں لیکن امریکا کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے والے عمران خان کی پارٹی کے رہنماسابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی کامیابی پر امید بھرا پیغام بھیجا ہے ڈاکٹر عارف علوی نے ٹرمپ کوامریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی جیت نے موجودہ اور آنے والے آمروں پر کپکپی طاری کردی ہے۔یعنی وہ ٹرمپ کی کامیابی کا تعلق پاکستانی سیاست سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔عارف علوی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط میں کہا کہ میں پاکستانی عوام کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہم جمہوری قوموں کے طور پر مسلسل تعاون کے منتظر ہیں۔ آپ پاکستان کے اچھے دوست رہے ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ عالمی امن کے لیے کوششیں جاری رکھنے پرآپ کے لیے نیک خواہشات پیش کرتے ہیں، دنیا یوکرین اور فلسطین میں جنگ سے پریشان ہے، جنگ کے اثرات سے پاکستان اور ہمارے لوگوں کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں کہ یہ تو وہ بات ہے جس کے بارے میں دنیا کا کوئی سمجھدار انسان ماننے کو تیار نہیں، عام امریکی شاید ایسا ہی کرتا ہو لیکن امریکی حکمراں تو ہمیشہ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔ڈاکٹر علوی نے کہا کہ ہم آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی پی ٹی آئی کی جانب سے امریکی صدر یا حکمران کے بارے میں بڑا پر امید قسم کا بیان ہے۔ شاید انہیں اُمید ہو چلی ہے کہ سفارتی دبائو کے نتیجے میں ان کے رہنما رہا ہو جائیں گے، لیکن ایسا ہوا تو پارٹی اور پاکستان کو اس کی بھاری قیمت دینی ہو گی، ٹرمپ کے جانے بائیڈن کے آنے اور ٹرمپ کی واپسی میں پاکستان کے لیے بہت سے پیغامات ہیں، امریکا میں پارٹیوں اور صدور کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن مشرق وسطی، اسلامی ممالک اسرائیل فلسطین وغیرہ کے معاملے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے ، بس برائے نام، اور انداز بدلتے رہتے ہیں،یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکا اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی ترک کردے، اور مسلمان ملکوں پر کنٹرول کم کردے، ٹرمپکے بارے میں روس کا تبصرہ سب سے اچھا ہے کہ اقدامات دیکھیں گے، پاکستانی حکمران تو اب تک مخمصے میں ہیں کہ چین کی طرف جائیں یا امریکا کی گود میں رہیں، یہاں سے بالغ نظر خارجہ پالیسی کے امکانات کم ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکی صدر کی تبدیلی سے ہماری لاٹری نہیں نکلے گی، وہاں کی تبدیلیاں وہاں کے عوام اور مفادات کے لیے ہوتی ہیں۔امریکی خارجہ پالیسی کا مثلث پنٹاگان ، دفتر خارجہ اور عالمی حالات پرمشتمل ہے ۔ جس کام میں امریکا کا فائدہ ہے وہ اسے کرتے ہیں۔ شاید یوکرین جنگ ختم ہو جائے۔ اس کا کچھ فائدہ پاکستان کو بھی ہو گا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت جاری رہے گی۔ بلکہ سعودی عرب او ر اسرائیل کے قریب آنے کے امکانات ہیں ۔پاکستان کے لیے کوئی بڑی خبرنہیں۔