جناب یحییٰ خان آفریدی صاحب کا بطور چیف جسٹس ابھی نام ہی سامنے آیا تھا کہ دانشوروں نے سُودو زیاں پر تبصرے کرنے شروع کردیے ہیں۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے ہیں کہ درخت کے کونپل دیکھ کر اُس کے پھلوں کے ذائقے کا اندازہ نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ بعض درختوں کے تنوں پر کچھ دوسرے درخت بھی اُگ آتے ہیں پھر بڑی صاف بات ہے کہ جو درخت اپنی نسل کے بجائے کسی دوسری نسل کے درخت کے ریشے اور رگوں سے جُڑے ہوئے ہوں گے وہ اپنی اصلیّت کس طرح ظاہر کر پائیں گے۔ اُس درخت کا نہ تو پھل توقع کے مطابق ہوگا اور نہ اُس کی لکڑیاں ہی معیاری انداز کی ہوں گی۔
بہرکیف! موجودہ قاضی اُلقضاۃ یعنی چیف جسٹس جناب یحییٰ خان آفریدی کے والد محترم جناب عمر خان آفریدی پاکستان ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل تھے اور کپتان کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے‘ وہ اِسی عہدے پر رہتے ہوئے ریٹائر بھی ہوئے تھے وہاں اُن کو اعزازی تلوار اور طلائی تمغا بھی عطا کیا گیا تھا۔ جناب عمر خان صاحب نے فوج سے فارغ ہونے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرلی تھی اور صوبہ خیبر پختون خوا میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ وفاقی وزیر اور صدرِ پاکستان کے سیکرٹری بھی تعینات رہ چکے تھے۔
جناب عمر خان کے والد یعنی چیف جسٹس صاحب کے دادا محترم جناب منوّر خان آفریدی ایک بڑے ڈاکٹر کا رتبہ رکھتے تھے اور پاکستان کی فوج میں اعلیٰ عہدے پر سرفراز تھے۔ حاصل مضمون یہ ہے کہ جناب چیف جسٹس صاحب انتظامی اُمور کے ساتھ ساتھ عسکری بیخ وبُن سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ اُن کو ملک کے اندر خرابیاں اور بگاڑ پیدا کرنے والوں سے خوب آگہی ہوگی۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہُ کے حوالے سے یہ بات صرف مشہور ہی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کے طَور پر تسلیم شدہ بھی ہے کہ بے دِین حکومت تو چل سکتی ہے لیکن بے عدل حکومت ناپائیدار ہوتی ہے۔ کسی آدمی کا زیرک اور ذہین ہونا یقینا ایک بڑی بات ہے لیکن آدمی کا منصف ہونا اور بھی بڑی بات ہے۔ ہمارے مُلک پاکستان میں ججوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اگرچہ بہت زیرک اور ذہین تھے لیکن اُن ججوں نے اپنی ذہانت کو منفی سوچ کے لیے استعمال کیا۔ جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خوف آتا ہے ویسے بھی اِن دنوں طاقت سے جو خوف نہ کھائے اُسے احمق کہا جاتا ہے۔
چیف جسٹس صاحب سے میری گزارش ہوگی کہ وہ صرف ایک ماہ کے لیے اپنا بھیس بدل کر، کہیں پِیر بن کر اور کہیں فقیر بن کر مُلک بھر کی عدالتوں میںگشت کریں اور وہاں عدل کرنے کا تماشا دیکھیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آپ کو یہ مشق کرکے بڑا لطف آئے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ بعض جج صاحبان مرغی چوروں کو تو سزائیں دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے ہیں لیکن دریا اور سمندر پی جانے والوں کو دیکھ کر وہ اپنی آنکھیں پتھرا لیتے ہیں۔
سابق قاضی جی نے جس کمپنی کی گھُٹّی چاٹ رکھی تھی اُسی کمپنی کی گھُٹّی اِن دنوں کے بعض جج صاحبان بھی چاٹ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ٹائم بارٹ کرنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ رشوت اور ضمانت کا شاید چولی دامن والا معاملہ ہے، مَیں ایک روز کسی محفل میں بیٹھا ہُوا تھا اور ایک آنجہانی جج کی دیانتداری کی تعریف کر رہا تھا، ایک صاحب میری بات سن کے مسکرائے اور کہنے لگے: ’’بلا تحقیق کسی کی تعریف آپ کے مُنہ سے سن کر مجھے اچھی نہیں لگی کیونکہ مَیں نے اُن جج صاحب کو اُن کے چیمبر میں تیس ہزار روپے نقد دے کر اپنے بھائی کی ضمانت کروائی تھی‘‘۔
مقدمات چونکہ عدالتوں ہی میں آتے ہیں چنانچہ آں جناب کو شہروں اور مضافات میں پھرنے کی حاجت نہیں ہوگی۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ انتظامی سطح پر ہونے والی بدعنوانیاں دیکھنے کے لیے جناب کو سرکاری اداروں کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ بیرونِ مُلک سے آتے ہوئے مَیں نے ائرپورٹ پر ایک تماشا یہ دیکھا کہ انتظامیہ کے اہلکار بیرونِ مُلک سے آنے والوں کے بَیگ اور بکسے پر تو عقاب جیسی نگاہیں رکھتے ہیں کہ کون کیا مال اموال لے کر آیا ہے اور اُسے تحفے دینے کے لیے کیا لایا ہے۔ لیکن حکّام کی صورت میں بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے بکسے میں بھر کر بیرونِ ملک کیا لے جارہے ہیں اِن باتوں سے اُن کو کوئی غرض نہیں ہوتی ہے کیونکہ حکّام کی قوّت سے ٹکّر لینے کی سکَت اُن بے چاروں میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ معمّا بھی اگر حل ہوجاتا کہ پارسائی کے دعوے دار سابق وزیر ِداخلہ رانا ثنا اُللہ منشیات کے کاروبار سے واقعی منسلک ہیں یا شہریار آفریدی نے کلمہ پڑھ کر خواہ مخواہ مذکورہ وزیر کو بدنام کرنے کی کوشش اور خواہش کی تھی۔ اگر شہریار آفریدی نے رانا صاحب پر محض یہ تہمت لگائی تھی تو گویا اُس نے دوہرا گناہ کیا تھا ایک تو یہ کہ اُس نے کلمے کی توہین کی اور دوسری جانب ایک شریف آدمی کو اُس نے بلاوجہ داغدار کیا۔ جسٹس صاحب ہمارے مُلک میں داغ لگانے والے تو بہت ہیں لیکن داغ دھونے والوں کی یہاں بڑی کمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس مُلک کے قاضی بیدار رہتے ہیں وہاں کے عوام مزے کی نیند سوتے ہیں۔