افغان معیشت کی بدحالی کے بارے میں سامراجی پروپیگنڈا مدھم پڑ رہا ہے۔ سامراج کو توقع تھی کہ انقلاب کے بعد افغان معیشت تباہ ہو جائے گی، فاقہ کشی عام ہو گی، بے روزگاری کا سیلاب آ جائے گا، افراط زر اتنا بڑھ جائے گا کہ عوام اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن سامراج کی یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ طالبان قیادت نے تین سال کے قلیل عرصہ میں معاشی استحکام قائم کر کے ملکی معیشت کو استحکام دیا ہے۔ اس بات کا اقرار خود ورلڈ بینک جو کہ ایک سامراج نواز ادارہ ہے اپنی ماہانہ تجزیاتی رپورٹ Afghanistan Economic Monitor میں کرنے پر مجبور ہے۔ ہم اْسی ورلڈ بینک کی حالیہ تجزیاتی رپورٹ سے اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ مالی سال 24-2023ء میں افغان معیشت کی مجموعی پیداواری شرح نمو (GDP rate of growth) مثبت رہی۔ پوری رپورٹ میں افلاس یا بے روزگاری کے پھیلنے کے ضمن میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے۔ نہ اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر لگائی گئی پابندیوں کا کوئی منفی اثر معاشی ارتقا اور استحکام پر پڑا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں کا اشاریہ (CPI Index) اگست 2024ء میں اگست 2023ء کے مقابلے میں تقریباً 7 فی صد گرا ہے۔ اس دورانیہ میں خوردنی اشیا کی قیمتوں میں 11 فی صد کمی آئی ہے اور غیر خوردنی اشیا کی قیمتوں میں تقریباً 2 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق آٹا، سبزیوں اور شکر کی قیمتوں میں کمی کی وجہ زرعی شعبہ کی ترقی اور مارکیٹی ترسیلی روابط (supply chains) میں رونما ہونے والی بہتری رہی ہے۔ کپڑے کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں۔
قیمتوں میں استحکام کی ایک بنیادی وجہ قومی کرنسی (افغانی) کے شرح تبدل میں اضافہ ہے۔ دسمبر 2021ء میں افغانی کا ڈالر کے مقابلہ میں شرح تبدل 104 تھا یعنی 104 افغانی ایک ڈالر کے عوض تبدیل کیا جاتا تھا۔ یہ نرخ انقلاب کے دوران مستقل گر رہا ہے اور ستمبر 2024ء میں یہ نرخ گر کر 69 افغانی تک پہنچ گیا ہے۔ افغانی کا شرح تبدل تمام اہم کرنسیوں (یورو، پاکستانی اور ہندوستانی روپیہ، چینی یوان، ایرانی تومان) کے مقابلہ میں تیز رفتاری سے بڑھا ہے۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغانی کا شرح تبدل میں اضافہ ستمبر 2024ء میں 108 فی صد تھا۔
ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ شرح تبادلہ میں اضافے کا بنیادی سبب اسلامی حکومت کی کامیاب زرعی پالیسی اور ترسیل زر پر عائد سخت پابندیاں ہیں۔ ورلڈ بینک کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی حکومت کی افغان تجارت پر لگائی گئی پابندیوں کے نتیجے میں افغان توازن بیرونی تجارت کے خسارہ میں 24-2023 کے دوران میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے کوئلے اور پھلوں کی افغان برآمدات پر محصول نافذ کر دیے ہیں۔ تجارت اور ترسیل اشیا پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے اندر مجموعی طور پر پھلوں اور میوہ جات کی برآمدات، دھاتوں، پتھر، مواصلاتی مشینری، لکڑی کی اشیا، خوردنی تیل اور موتیوں کے برآمدات اوسطاً 36 فی صد بڑھی ہے۔ مختلف تجارتی پابندیوں سے نمٹنے کے لیے امارت اسلامیہ پڑوسی ملک ایران، ازبکستان، قازقستان اور روس کے لیے برآمدات کو فروغ دے رہی ہے۔
جنوری تا اگست 2024ء میں افغانی برآمدات 28 فی صد بڑھی اور ان کا حجم 6 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والے درآمدات معدنی اشیا، کیمیائی اشیا اور مشینری تھیں اور ان کی اضافہ کی شرح نمو 56 فی صد سے 45 فی صد تک رہی۔ ان درآمدات کی کھپت افغان معیشت کے صنعتی شعبہ میں کی جا رہی ہے اور ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ افغانستان کا صنعتی شعبہ تیزی مضبوط ہو ر ہا ہے۔
ایران سب سے اہم درآمداتی مرکز بن کر سامنے آیا ہے۔ ایرانی درآمدات جنوری تا اگست 2024ء کے دوران میں افغانستان میں تقریباً 80 فی صد کی رفتار سے بڑھی ہیں۔ پاکستان کی لگائی گئی پابندیوں کے ردعمل کے طور پر اسلامی حکومت بین الاقوامی ترسیلات کا راستہ ایران کو بنا رہی ہے۔ ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ مارچ تا ستمبر 2024ء میں محصولات تیزی سے بڑھے ہیں۔ اس دوران مجموعی محصولات کا حجم 111 ملین افغانی تھا جو پچھلے سال کے اسی دورانیہ کے حجم میں 100 فی صد رہا تھا اور سال 2024-2025 کی پہلے ششماہی کے محصولاتی حجم سے تجاوز کر گیا تھا۔ اندرونی محصولات 23 فی صد بڑھے۔ غیر ٹیکس محصولات 27 فی صد بڑھے۔ صوبہ جاتی محصولات میں 26 فی صد اضافہ ہوا۔ محصولات میں اضافہ کا بنیادی سبب ایک مثالی نظام عدل کا قیام ہے جس نے ٹیکس چوری اور کرپشن کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک اس کا اقرار کرتا ہے۔ بیرونی تجارتی محصولات میں بھی اضافہ ہوا اور 2024-2025 کے پہلے چھے ماہ میں بیرونی محصولات طے کردہ ہدف سے 4 فی صد زیادہ رہے۔ اس اضافہ کا سبب بھی کسٹمز کی بہتر کارکردگی اور دیانت داری بیان کی گئی ہے۔ بیرونی محصولات میں اضافے کے باوجود کپڑوں اور دواؤں پر محصولاتی نرخ کم کر دیے گئے ہیں۔
اپنے سابقہ تجزیوں میں ورلڈ بینک مارکیٹی رسد و طلب، حکومتی تنخواہوں کی تقسیم اور بینک کاری شعبہ کی کارکردگی کے اعداد و شمار بھی پیش کرتا تھا۔ اور یہ سب افغان معیشت کے استحکام کی نشان دہی کرتے تھے۔ لہٰذا جون 2024ء سے ورلڈ بینک نے ان تمام اعدادی جدول کو پیش کرنا بند کر دیا ہے اور اپنا تجزیہ قیمتوں اور شرح تبدل کے رجحان، بیرونی تجارت اورمحصولاتی نظام کی کارکردگی تک محدود کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ سامراج اپنی تمنا کے باوجود افغانستان کو بحرانوں میں پھنسی ہوئی معیشت کے طور پر پیش کرنے کی تصدیق نہیں کر سکتا اور افغان معیشت میں جاری استحکام کو نہیں چھپا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں نہ افراط زر ہے نہ وہاں بے روزگاری عام ہے نہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ افغانستان کی اسلامی حکومت ایک غیر سرمایہ دارانہ ترقی پذیر معیشت قائم کرنے کی جانب گامزن ہے جو سامراجی گرفت سے آزاد اور سامراج کی مسلط کردہ پابندیوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت بڑھا رہی ہے۔