جب اسکندر مرزا نے اپنی سہولت کے لیے اپنے ہی آرمی چیف کو وزیر دفاع بنالیا تو پھر کیا ہوا، جس ریوالور کو وہ دوسروں کے سینوں پر رکھوا کہ اپنی چودھراہٹ مضبوط کرنا چاہتے تھے ایک رات کو وہی ریوالور ان کے سینے پر رکھ کر انہیں اقتدار سے معزول کردیا گیا۔ جب ایک نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کو ایوب خان نے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی کابینہ کا وزیر بنایا تو اس نے بہت جلد ایوب خان کا اعتماد حاصل کرلیا یہاں تک کہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی جیت میں اس نوجوان وزیر کی سہولت کاری کام میں آئی اور فاطمہ جناح ہار گئیں۔ یہ سہولت کار ایوب خان کے منہ بولے بیٹے بھی بن گئے۔ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ بھٹو کی ایوب خان سے انسیت اور قربت اتنی شدید تھی کہ ایک تاریخی واقعہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک اعلیٰ سطح کی سرکاری تقریب تھی بھٹو اس وقت نوجوان، کھلنڈرے ٹائپ کے شرارتی ذہن رکھتے تھے انہوں نے اپنی کوٹ کی اوپر والی جیب میں ایک چمچہ اس طرح رکھا کہ وہ باہر سے صاف نظر آرہا تھا کسی نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بڑے خوشگوار موڈ میں کہا کہ اس سے پہلے کے لوگ مجھے کسی کا چمچہ کہیں میں نے خود ہی اس کا اظہار کردیا۔ ایوب خان نے جب بھٹو کو کنونشن لیگ کا جنرل سیکرٹری بنایا تو انہوں نے ایک انوکھی تجویز پیش کی کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس ضلع کا مسلم لیگ کا صدر بنادیا جائے۔ تعلقات کے اس شفاف شیشے میں بال کب اور کیسے پڑا اس کی کوئی یقینی بات تو کہیں سامنے نہیں آئی البتہ یہ بات سننے میں آئی کہ 1964 کا انتخاب جیتنے کے بعد جب آپریشن جبرالٹر شروع ہوا تو اس میں ایوب خان کا خیال تھا اس آپریشن کے سلسلے میں بھٹو نے مس گائیڈ کیا۔ آپریشن جبرالٹر پاکستانی فوجیوں کو مجاہدین کی شکل میں مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنا اس میں دو نکات سامنے آئے اور وہ دونوں غلط ثابت ہوئے پہلی بات تویہ کہ عام کشمیری اس جدوجہد آزادی میں شانہ بشانہ پاکستانی مجاہدین کا ساتھ دیں گے اور دوسری بات یہ کہ بھٹو نے ایوب خان سے کہا کہ ہمیں بڑی طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کراس نہیں کرے گا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ عام کشمیریوں کی طرف سے کوئی مورال سپورٹ نہ ملی اور دوسرے یہ کہ پانچ ستمبر کی رات کو انڈیا نے پاکستان پر خاموشی سے حملہ کردیا۔ اختلافات تو پڑ چکے تھے بھٹو کسی بہانے کی تلاش میں تھے جنگ چھڑ گئی جنگ کے بعد فروری 1966 روس کے شہر تاشقند میں روس کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے میدان میں جیتی ہوئی جنگ ہم تاشقند میں ہار گئے۔ تاشقند مذاکرات کی ناکامی کا مضبوط بیانیہ بھٹو کے ہاتھ میں آگیا۔ اسی بیانیے کو لے کر بھٹو نے ایوب خان کے خلاف زبردست مہم چلائی اور پھر یہی ہوا قدم قدم پہ ایوب خان کی سہولت کاری کرنے والا جب مصیبت بنا تو ایسا بنا کہ ایوب خان جیسے آمر کے قدم ڈگمگا گئے۔
بھٹو جب ملک کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملک میں امن امان کے قیام کے لیے اور درپردہ اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کیے فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف) تشکیل دی اور اس میں اپنے سب سے قابل اعتماد دوست ساتھی یا رفیق مسعود محمود کو اس کا سربراہ بنایا جس نے ہر ہر مرحلے پر بھٹو کی بے چوں و چراں اطاعت کی دوسرے لفظوں میں یہ بہت اچھے سہولت کار ثابت ہوئے لیکن جب بھٹو کے خلاف احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ چلا تو یہی سہولت کار بھٹو کے خلاف سلطانی گواہ بن گیا اور اسی کی گواہی پر بھٹو کو موت کی سزا سنائی گئی۔ گواہی دینے کے بعد اس شخص نے امریکا میں مستقل سکونت حاصل کرکے اپنی زندگی کے بقیہ دن وہیں گزارے۔ آرمی چیف کے تقرر کا مرحلہ آیا تو جنرل ضیاء الحق کا نمبر بہت نیچے تھا لیکن بھٹو نے دیکھا کہ یہ نمازی پرہیزگار فرد ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یہ ان کے لیے بے ضرر ثابت ہوگا لیکن پھر یہی جنرل ضیاء الحق جس پر بھٹو نے یہ احسان کیا تھا کہ بہت نیچے سے اوپر لے کر آئے اور پھر جنرل نے احسان کا یہ بدلہ چکایا کہ اس نے بھٹو کو آسمان سے اوپر پہنچا دیا۔
جنرل ضیاء الحق ملک کے صدر بن گئے وہ تاحیات ملک کے صدر رہنا چاہتے تھے ان کی حکومت کو سہارا دینے لیے بہت سے عناصر اور گروپ ان کے ساتھ آئے لیکن پھر بین الاقوامی حالات میں تبدیلی آئی افغان وار جنرل کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئی پھر یہ ہوا کہ یہ امریکا کے سہولت کار بن گئے تو یہ ایک لحاظ سے امریکا ان کا سہولت کار تھا اور اسی سہولت کاری کے نتیجے میں امریکا نے پاکستان کے ایٹم بم کی تیاری کے مراحل کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں اس کے نزدیک ایٹم بم سے زیادہ اہم یہ تھا کہ روس کو افغانستان میں شکست ہو جائے پھر یہ موقع نہیں ملے گا۔ امریکا اور جنرل ضیاء الحق جو ایک دوسرے کے سہولت کار تھا ان کی سہولت کاری میں دراڑیں اس وقت پڑیں جب روس کی فوجیں افغانستان سے واپس ہونا شروع ہوئیں۔ ضیا الحق یہ چاہتے تھے کہ افغانستان میں جن بڑی اور اہم مجاہد تنظیموں نے روس کے خلاف جہاد کیا ہے ان جہادی تنظیموں پر مشتمل افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو۔ ملک کے اندر جنرل ضیاء الحق نے 1985 کے انتخاب کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کو ملک کا وزیر اعظم بنایا دوسری طرف انہوں نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے 58/2B کی ایک شق کو آئین کا حصہ بنایا جس کے تحت صدر کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی وقت بھی وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتا ہے۔ جنیوا میں افغانستان کے مسئلے پر جو مذاکرات ہورہے تھے اسے جنیوا اکارڈ کا نام دیا گیا۔
ضیاء الحق کا موقف یہ تھا کہ روسی فوجوں کی واپسی سے پہلے افغانستان میں بڑی اور نمایاں مجاہد تنظیموں پر مشتمل حکومت کے قیام کا اعلان کردیا جائے تاکہ پر امن طریقے سے منتقلی اقتدار کا مرحلہ طے ہو جائے۔ امریکا کا موقف تھا کہ پہلے روس کی فوجیں واپس چلی جائیں پھر حکومت سازی کا مرحلہ بعد میںطے کرلیں گے در اصل امریکا افغانستان کو خانہ جنگی کی کیفیت میں لانا چاہتا تھا اس میں اس کے اپنے مفادات تھے۔ وزیر اعظم جونیجو جو جنرل ضیاء کے سہولت کار بن کر آئے تھے افغان اشو میں انہوں نے اپنے محسن ضیاء کا ساتھ دینے کے بجائے امریکی موقف کی حمایت کی چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے اس آئینی اٹھاون ٹو بی کے ذریعے جونیجو کی حکومت ختم کردی۔ سہولت کار جب آزمائش بن جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف جنرل ضیاء جو کبھی امریکا کے سہولت کار تھے اب وہ امریکا کے لیے مصیبت بن چکے تھے اور امریکا جو کبھی ضیائی حکومت کا زبردست سہولت کار تھا وہ جنرل ضیاء اس کے لیے مصیبت بن چکا تھا۔ اور پھر اگست 1988 میں بھاولپور کا سانحہ پیش آگیا۔
جنرل ضیاء کی رحلت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی بے نظیر وزیر اعظم بن گئیں غلام اسحاق خان صدر تھے بیس ماہ بعد انہوں 58/2B کی آئین شق کے ذریعے بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی اس میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر کو حکومت دلانے میں غلام اسحاق خان نے بھی سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ انتخابات ہوئے نواز شریف جیت گئے اور وہ وزیر اعظم بنے جبکہ بے نظیر بھٹو اپوزیشن رہنما بن گئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اسحاق خان میں اختلافات شروع ہوئے اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ مصالحت کار کے طور پر درمیان میں آئے فیصلہ کیا کہ صدر وزیر اعظم دونوں مستعفی ہو جائیں غلام اسحاق خان نے کہا میرا تو آئینی عہدہ ہے میں کیوں استعفا دوں معاملہ معلق ہوگیا۔ پی پی پی کا تو نعرہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ انہیں بیک وقت غلام اسحاق اور نواز شریف سے انتقام کا موقع مل رہا تھا۔ غلام اسحاق سے اس لیے کہ انہوں نے بلاوجہ بے نظیر کی پہلی حکومت ختم کی تھی اور نواز شریف سے اس لیے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ان کے اقتدار کا راستہ روکتے رہے ہیں۔ چنانچہ بے نظیر نے اسحاق خان کو خفیہ پیغام بھیجا کہ آپ مستعفی ہو کر نواز حکومت ختم کردیں تو اگلی مرتبہ پی پی پی آپ کو صدر بنا لے گی۔ نواز حکومت ختم ہوگئی انتخابات ہوئے بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں، غلام اسحاق اپنے داماد کے گھر بے نظیر کے فون کا انتظارکرتے رہے پھر ان کو اطلاع ملی کہ فاروق لغاری صدر بنائے جارہے ہیں۔ فاروق لغاری بے نظیر کے اعتماد کے فرد تھے انہوں نے اپنی سہولت کے لیے انہیں صدر بنایا کہ کوئی اور ہوگا تو خطرہ ہے کہ آئینی شق استعمال کرکے ان کی حکومت ختم کردے گا۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ غلام اسحاق خان نے اٹھاون ٹو بی کا استعمال اپنی آزاد مرضی سے کیا تھا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ فاروق لغاری جنہیں بے نظیر اپنے سہولت کار کی حیثیت سے لائی تھیں انہوں نے ہی کسی کے حکم پر بے نظیر کی حکومت ختم کردی۔
کہانی تو اور بھی ہے لیکن ہم اپنا یہ اندیشہ (خدا کرے کہ یہ غلط ہو) ظاہر کرنا چاہتے ہیں جو لوگ چھبیس ویں آئین ترمیم اپنی سہولت کے لیے لے کر آئیں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی سہولت آگے چل کر ہمارے حکمرانوں کے لیے مصیبت بن جائے معلوم ہوا کہ 27 ویں ترمیم در اصل 26 ویں ترمیم کو ختم کرنے لیے لائی جارہی ہے۔