عوام کے لیے دعائیں مریم نواز کے لیے لندن کی دوائیں

140

یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب بھی پاکستان کے ایوانِ اقتدار میں سے کسی فرد کو بیماری یا جسمانی تکلیف لاحق ہوتی ہے، تو ان کی پہلی ترجیح دیارِ غیر کے اعلیٰ و معیاری اسپتال بن جاتے ہیں، عوام کے خون پسینے کا پیسہ جو ٹیکسوں کی مدد میں لیا جاتا حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے، یہ امر شاید حیرت سے زیادہ غصے کا باعث ہے، یہ قوم جو اپنے مسائل میں گھری، بے کس و بے بس زندگی بسر کر رہی ہے، اس حقیقت کو بارہا دیکھ چکی ہے کہ وہ حکمران جن کی بدولت ملک میں نظامِ صحت کا معیار پست ہوتا جا رہا ہے، خود اپنے علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کو تر جیح دیتے ہیں۔

بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہماری وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز کو جب بھی ہلکا سا زکام یا گلے کا انفیکشن لاحق ہوتا ہے، اْنہیں فوراً لندن جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، یہ واقعی ہمارے علاج معالجے کے نظام کے لیے ایک تازیانہ ہے کہ ایک معمولی انفیکشن کا علاج بھی پاکستان میں ممکن نہیں، کیا پورے پنجاب میں کوئی ڈاکٹر، اسپتال، یا دوا نہیں جو وزیر اعلیٰ صاحبہ کے نازک حلق کا انفیکشن ٹھیک کر سکے؟یہ لمحۂ فکر ہے کہ ایک ایسے صوبے کی وزیر اعلیٰ جو خود کو عوام کی خادمہ کہتی ہیں، اپنے صوبے کے اسپتالوں کو ناقابل ِ بھروسا سمجھتی ہیں، سوال یہ ہے کہ جب حکمران ہی اپنے ہی ملک کے علاج کو ناقابل ِ اعتبار تصور کریں گے تو عوام کا کیا بنے گا؟ یعنی، سرکاری اسپتالوں کی صورت حال اتنی ناقص ہے کہ عوام تو کیا خود وزیر اعلیٰ صاحبہ کو بھی ان پر اعتماد نہیں۔ شاید لندن کی ہوا اور اسپتالوں کے ماحول میں ایسی کوئی جادوئی خاصیت ہے کہ جس سے علاج فوری اثر کر جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بے چارے عوام کو تو معمولی بخار سے لے کر جان لیوا بیماریوں تک کا سامنا انہی اسپتالوں میں کرنا ہوتا ہے، یہ طرزِ عمل محض صحت کے شعبے کی ناکامی پر طنز نہیں، بلکہ یہاں کے طبی نظام پر ایک کاری وار ضرب ہے جو اربابِ اقتدار کی نظر میںکوئی وقعت نہیں رکھتا، محترمہ کا یہ اقدام ملکی وقار کو مجروح کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ عوام کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے خود یہاں کے نظام پر کتنے پْر اعتماد ہیں۔ شاید اس امر سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی تقدیر تو بس عطائیوں اور نام نہاد اسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہے، پنجاب کے وہ عوام جو علاج کے لیے لمبی قطاروں میں وقت اور عزت گنوا بیٹھتے ہیں، کیا حکمرانوں کے اس رویے کو بھول جائیں گے؟ وہ لوگ جو اپنے بنیادی علاج کے لیے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں اور جن کے لیے اسپتالوں میں بستر اور دوائیں حاصل کرنا محض ایک خواب بن چکا ہے، کیا ان کے سینے میں کوئی سوال نہیں اٹھے گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمراں جو وطن کی محبت کا دم بھرتے ہیں، اپنے معمولی سے علاج کے لیے بھی لندن کا انتخاب کرتے ہیں؟ کیا ان کے پاس اتنی بھی جرأت نہیں کہ اپنے ہی ملک کے اسپتالوں پر اعتماد کریں؟ یہ دوغلا پن اور منافقت عوام کو اپنے حکمرانوں کے سچے یا جھوٹے ہونے کی پہچان دے رہا ہے، عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ حکمران طبقہ اپنی راحت اور آسائش کو فوقیت دیتا ہے، جب کہ ان کی تمام تقاریر، دعوے اور وعدے محض زبانی کلامی ہیں، عوام کے لیے دعائیں ہیں، اور ان کے اپنے لیے لندن کی دوائیں، ان کی عیاشیوں کے لیے سرحدیں کھلی ہیں، اور عوام کے لیے اسپتالوں کے دروازے بند، کیا یہ عوام کی تضحیک نہیں؟ کیا یہ ان کی بے بسی کا مذاق نہیں؟ آج یہ وقت ہے کہ مریم نواز صاحبہ اور ان جیسے تمام حکمران یہ حقیقت سمجھیں کہ عوام کا صبر لامحدود نہیں، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حکمرانی ایک امانت ہے، جو ان کے رویے، طرزِ عمل اور فیصلوں سے مشروط ہے، اگر حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ عوام ان پر بھروسا کرے، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے معیار کو عوام سے جدا نہ کریں۔ وہیں علاج کرائیں جہاں عوام کو مجبوری سے جانا پڑتا ہے، وہی سہولتیں استعمال کریں جو عوام کے لیے میسر ہیں۔ آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام کی خاموشی کو ان کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ خاموشی ایک چنگاری ہے، جو حکمرانوں کی لاپروائی اور خودغرضی کے ایندھن سے شعلے میں بدل سکتی ہے۔ جب عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان ناانصافیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے تو وہ دن شاید ان حکمرانوں کے لیے بے پناہ شرمندگی اور خجالت کا ہوگا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے پر غور کریں، کیونکہ عوام کی ’’خاموش بد دعائیں‘‘ ایک دن یہی ان کے لیے ’’نالہ ٔ نیم شب‘‘ بن جائے گی، یا پھر شاید اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم بھی وزیرِ اعلیٰ صاحبہ سے یہ نکتہ ٔ کمال سیکھ لیں کہ شفایابی کا راز تو صرف لندن کی فضاؤں میں مضمر ہے، کیونکہ اس سرزمین ِ عزیز میں تو مریضوں کی تقدیر فقط دعاؤں اور امیدوں کے سہارے سنورتی ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو