سی پیک فیز ٹو، شنگھائی تعاون تنظیم

110

گزشتہ دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کا اجلاس اور چینی وزیر اعظم کا کثیر المقاصد دورہ پاکستان، دونوں ہی اہمیت کے حامل تھے ان دونوں معاملات کی وجہ سے اس وقت پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک اور محب وطن عوام اس وقت اس تمام پیش رفت کو اطمینان اور تشکر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، جبکہ اندرون اور بیرون ملک بیٹھے پاکستان دشمن عناصر پیچ وتاب کھاتے ہوئے کانفرنس اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے تا کہ کسی بھی طرح سے عالمی میڈیا کی توجہ پاکستان کی اس کامیابی سے ہٹائی جاسکے۔ ویسے تو یہ اجلاس پہلے سے طے شدہ تھا مگر پاکستان کے خلاف جاری سازشوں، سیاسی حالات اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے رکن ممالک کو مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اس اجلاس کو ملتوی کر دیں لیکن یہ تمام عناصر ناکام رہے اور پاکستان دنیا کو یہ دکھانے میں کامیاب رہا کہ امن وامان سمیت سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ اس اجلاس میں دو عالمی طاقتوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت سات ممالک کے سربراہان مملکت اور باقی ممالک کے بھی اعلیٰ سطح کے وفود کا آنا یقینی طور پر اچھی اور مثبت پیش رفت تھی جس کے معاشی، سیاسی اور سفارتی اثرات یقینا پاکستان کے فائدے میں جائیں گے۔ اجلاس میں چین سے سی پیک 2 کی چھتری کے نیچے نئے ایم او یوز اور معاہدوں کا ہونا اور گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ کا افتتاح انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ مشترکہ اعلامیے میں ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل کے اصول پر زور دیا گیا اور غیر امتیازی اور شفاف عالمی تجارتی نظام کو ضروری قرار دیتے ہوئے یکطرفہ تجارتی پابندیوں کی مخالفت کی گئی۔ در حقیقت شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس کے اہم اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اورسلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد پاکستان کے لیے اہم سنگ میل تھا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہوا، ایس سی او کے رکن ممالک نے اجلاس کے دوران اقتصادی روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ یہ اہم سر براہ اجلاس یقینی طور پر علاقائی تجارت میں اضافے کا سبب بنے گا اور زراعت، پیشہ ورانہ تربیت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں باہمی تعاون کے منصوبوں کے ذریعے غربت میں کمی لائے گا۔ افغانستان اور کشمیر کے تنازعے سمیت علاقائی سلامتی کے خدشات کو حل کرتے ہوئے کاربن ٹریڈنگ پر علاقائی تعاون اور کم کاربن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے نئے فریم ورک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گا۔ پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال، جس کی نشاندہی بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر اور سُست شرح نمو ہے، نئی اقتصادی شراکت داری کی اشد ضرورت ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم کی اقتصادی جہت عمل میں آتی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان آئے، کچھ وقت یہاں گزارا، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شریک ہوئے، اسے بہت بڑی پیش رفت تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ یہ کام ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے خود ایس سی او اجلاس میں شرکت کو ترجیح دی۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اچھے نہیں ہیں اور بنیادی مسائل حل ہونے تک تعلقات معمول پر آ بھی نہیں سکتے۔

پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے ہر موقع پر نا قابل تردید ثبوت و شواہد رکھتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے لیکن دنیا مالی مفادات کے پیش نظر حقائق پر نظر دوڑانے کے بجائے کسی اور انداز میں سوچتی ہے اور وہ سوچ مالی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے بنیادی مسائل کا حل ضروری ہے۔ اس کے لیے بات چیت بھی ایک راستہ ہی ہے۔ چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد اور اجلاس میں شرکت ہمارے لیے نیک شگون ثابت ہوئی ہے، اسی تناظر میں سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے ساتھ مل کر پاکستان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہا ہے جبکہ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے خروج کے بعد پاکستان کے لیے جو مثبت امکانات پیدا ہوئے تھے اس سے بھی کما حقہ فائدہ نہیں اْٹھا سکے۔ ہم دو دہائیوں تک افغانوں کے مددگار اور میزبان بنے رہے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان ہمارے دہشت گردوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ افغان سرزمین ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان دشمن گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ افغان ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ہم اب بھی ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہیں، لاکھوں افغانی یہاں مقیم ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں یہاں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن ہماری مبہم اور غیر حقیقی پالیسیوں

کے باعث وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہماری علاقائی سالمیت کا احترام نہیں کرتے۔

ان شاء اللہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہوگی، چین، روس سمیت دیگر ممالک کے سربراہان کی آمد پاکستان پر عالمی اعتماد کی مظہر ہے، اب ایس سی او اجلاس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج جائے گا۔ بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم مواقع فراہم کرتا ہے۔ اجلاس کے دوران پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کو اجاگر کرنے اور عالمی اقتصادی نظام میں اپنے کردار کو مزید مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مر نے پاکستان میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون کونسل کے سر براہ اجلاس پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ملک کے خود مختار گروپ میں شریک ہونے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم سینٹرل ایشیائی ممالک کو ایک بہت بڑا فورم فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف خطے کے مسائل حل کریں ساتھ میں معیشت، توانائی، دفاع اور سیکورٹی جیسے معاملات میں بھی پیش رفت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا کر خطے کے تمام رکن ممالک معاشی ترقی، دفاعی صلاحیت اور سیکورٹی جیسے مسائل کو باہمی تعاون سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مستقبل میں پاکستان کو ایس سی او کے ذریعے مزید تعاون اور اقتصادی ترقی کے مواقعے حاصل ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی مہمانداری کے ذریعے پاکستان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے، سفارتی سطح پر اس کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے، اقتصادی ترقی کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یکسوئی کے ساتھ معاملات دیکھیں اور ان میں اپنے مفادات کے مطابق مواقع تلاش کر کے انہیں رو بہ عمل لائیں۔