موسم سرما کی پہلی بارش کا انتظار

340

اکتوبر کے وسط یا اس کے بعد جو بھی بارش ہو اُسے بالعموم موسم سرما کی پہلی بارش کہا جاتا ہے۔ اس بارش کے ہوتے ہی سردی پہاڑوں سے اُتر کر میدانی علاقوں میں آجاتی ہے اور اپنے ناز نخرے دکھانے لگتی ہے لیکن اب کی دفعہ موسم کے تیور ہی بدلے ہوئے ہیں۔ اکتوبر میں محکمہ موسمیات کی پیش گوئی تو یہی تھی کہ پورے ملک میں بارشیں ہوں گی اور سردی کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ کہیں کہیں چھنیٹے پڑے ضرور لیکن ملک گیر بارشوں کی پیش گوئی دھری کی دھری رہ گئی اور سورج بدستور آگ اُگلتا رہا۔ اب کہ نومبر آن پہنچا ہے ہمیں ابھی تک موسم سرما کی پہلی بارش کا انتظار ہے لیکن محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ فی الحال بارش کو بھول جائو۔ یہ مہینہ بھی کم و بیش خشک ہی گزرے گا۔ خیر ہم تو گزارہ کرلیں گے لیکن سردی کو تابِ انتظار نہیں وہ بالآخر آسمان سے ہجرت کرکے زمین پر آگئی ہے لیکن فی الحال شرمائی لجائی سی ہے جیسے بن بلائے آگئی ہو۔ حالانکہ ہم تو اس کے انتظار میں بے حال ہوئے جارہے تھے۔ فی الحال سردی کی عملداری سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے جوں جوں رات بھیگتی ہے اس کی خودنمائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، لوگوں نے اس کے استقبال کے لیے کمبل نکال لیے ہیں، وہ زمانہ گیا جب روئی کی رضائیاں استعمال ہوتی تھیں اور ہر سال انہیں اُدھیڑ کر نئے سرے سے روئی بھروائی جاتی اور رضائی کا استر دھوکر اسے نیا بنایا جاتا تھا، پھر رضائی میں دھاگا ڈالنا ایک مشقت طلب کام تھا جو اجرت پر غریب عورتوں سے کرایا جاتا تھا، لیکن اب مدت ہوئی یہ جھنجھٹ ختم ہوگئی ہے، روئی کی رضائیوں کا زمانہ گزر گیا، اب بوسٹر کی وکی رضائیوں کا دور ہے۔ میلی ہوجائیں تو دھو کر سکھالیں، نہ ادھیڑنے کی ضرورت، نہ بھروانے کی زحمت۔ جو لوگ زیادہ ماڈرن ہیں وہ شدید سردی میں ڈبل پلائی کمبل استعمال کرتے ہیں۔ یہ فیشن یورپ سے آیا ہے اور ہمارے ہاں بھی بکثرت استعمال ہورہا ہے۔ ڈبل پلائی کے کمبل بھی تو امپورٹڈ ہیں لیکن بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ جو مزا روئی کی رضا اوڑھنے میں تھا وہ اب کہاں۔

اب کی دفعہ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال سردی کم پڑے گی اور موسم سرما یونہی خشک اور بے آب گزرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پہاڑوں پر برفباری بھی کم ہوگی، سردی بارش کو بھی ترستی رہے گی اور سارا موسم یوں ہی بے کیف گزر جائے گا، لیکن یہ محکمہ موسمیات کے محض سائنسی اندازے ہیں، قدرت ان اندازوں کی پابند نہیں وہ جب چاہے جل تھل کردے اور پہاڑوں پر برفباری کے ریکارڈ توڑ دے۔ چند سال پہلے مری میں برفانی طوفان نے سیکڑوں افراد کی جان لے لی تھی جبکہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی میں ایسے کسی طوفان کی وارننگ شامل نہ تھی اور لوگ برفباری انجوائے کرنے بڑی تعداد میں مری جارہے تھے۔ سردی میں ایک اور موسم اپنا خیمہ لگا لیتا ہے اسے موسم خزاں کہتے ہیں، یعنی پت جھڑ کا موسم جس میں درخت اپنا لباس اُتار کر نئی پوشاک کے انتظار میں برہنہ ہوجاتے ہیں۔ نومبر، دسمبر اور جنوری یہ تین مہینے خزاں کے ہیں۔ خزاں میں اُداسی، مایوسی اور ناکامی اور زوال کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مثل مشہور ہے ’’ہر عروجے را زوالے‘‘ یعنی ہر عروج کے بعد زوال ضرور آتا ہے۔ ان تین مہینوں میں پتے پیلے ہو کر درختوں سے اپنا ناتا توڑ لیتے ہیں اور پیوند خاک ہوجاتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

پتے بھی خاک میں مل کر زمین کی روئیدگی میں اضافہ کرتے ہیں اور موسم بہار میں نیا جنم لے کر درختوں کے لیے لباس فاخرہ بن جاتے ہیں۔

یہی حال قوموں کا ہے ان پر بھی عروج و زوال کے موسم آتے ہیں جو قومیں سخت جان ہوتی ہیں وہ موسم کی تبدیلی کو جھیل جاتی ہیں اور اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، کمزور قومیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ قوموں سے عروج و زوال سے بھری ہوئی ہے، قرآن میں ایسی کتنی قوموں کا ذکر ہے جو اپنے زمانے میں عروج کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں اس عروج نے ان کے اندر سرکشی کی کیفیت پیدا کردی تھی اور یہی ان کے زوال کا سبب بن گئی اور وہ لوحِ زمانہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹادی گئیں۔ دیکھا جائے تو برصغیر میں پاکستان کا قیام مسلمانون کے عروج کا زمانہ تھا وہ ایک طویل زوال کے بعد اس عروج سے ہم کنار ہوئے تھے۔ انہیں ایک نیا ملک اور نئی قومی شناخت میسر آئی تھی۔ یہ پیرکارواں جناب محمد علی جناحؒ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگا، یہاں قرآن کا آئین چلے گا، انصاف کی عملداری ہوگی، معیشت اسلامی اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ قائداعظم اگرچہ قیام پاکستان کے بعد بہت جلد داغ مفارقت دے گئے لیکن وہ پاکستان کی شکل و صورت پوری طرح واضح کرگئے تھے۔ ان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے اتفاق رائے سے قرارداد مقاصد کی منظوری حاصل کرکے راستے اور منزل کا تعین بھی کردیا تھا کہ اندرونی اور بیرونی سازشوں نے ملک کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا اور ملک اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے راستے ہی میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اور ایسا اُلجھا کہ صرف چوبیس سال کے اندر اپنے آدھے وجود سے محروم ہوگیا۔ جو باقی بچا اس پر نااہل، بددیانت اور کرپٹ مافیاز نے قبضہ کرلیا۔ حکمرانوں نے عوام کی رائے کو اپنے بوٹوں تلے کچل ڈالا اور ملک پر ایک ایسی فسطائیت مسلط کردی جس کی دنیا میں مثل نہیں ملتی۔

قدرت موسموں کے تغیر و قبول کا پورا اختیار رکھتی ہے اور کسی موسم کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی لیکن قوموں کی بہار و خزاں اور عروج و زوال کے ضابطے مختلف ہیں۔ قوم جو بوتی ہے وہی کاٹتی ہے جو کرتی ہے وہی سمیٹتی ہے۔ اس وقت پاکستانی قوم جو فصل کاٹ رہی ہے وہ اس کا اپنا کیا دھرا ہے، یہ صورت حال بدل سکتی ہے بشرطیکہ پوری قوم راہزن اور رہبر میں تمیز کرتے ہوئے میدان عمل میں نکل آئے اور ظلم و ناانصافی پر مبنی موجودہ نظام کو ٹھکانے لگادے۔