اب سب ٹھیک ہوجائے گا؟؟

202

پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک مرتبہ پھر انتہائی تیز رفتاری سے آئین میں مزید تبدیلیاں کرلیں اور نئی تبدیلیوں کے بعد فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کردی گئی، اپوزیشن نے اس پر احتجاج کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ نے آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف کی مدتِ ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے اور عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے سمیت 6 بل کثرتِ رائے اور سرعت سے منظور کرلیے۔ اپوزیشن ارکان نے اس دوران شدید احتجاج کرتے ہوئے بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ ان بلوں کی منظوری کے لیے حکومت کو سادہ اکثریت کی ضرورت تھی اور اس کے لیے ’’یس‘‘ اور ’’نو‘‘ کے ذریعے فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ وزیر قانون کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تعداد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کو منظوری دینے میں چند ہی منٹ لگے پھر وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء، پاکستان نیول ایکٹ 1961ء اور پاکستان ائر فورس ایکٹ 1953ء میں ترمیم کے بل بھی منظور کر لیے گئے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیے جانے والے ان بلوں کے مطابق تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کا بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔ پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔ چھبیسویں ترمیم کے قوانین کے معاملے میں رسمی رعایت دیتے ہوئے اس بل میں لکھا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت آئینی بینچ کے دیے گئے فیصلے کے خلاف لارجر آئینی بینچ میں 30 روز میں اپیل ہو سکے گی۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ لارجر بینچ کون اور کیسے بنائے گا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کا اطلاق 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے ہو گا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں سات اے اور سات بی کی شقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، ہر کیس اپیل کو فرسٹ ان فرسٹ آئوٹ کی بنیاد پر سنا جائے گا۔ قانون میں نئی شق سات بی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بل میں لکھا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ہر مقدمے، معاملے یا اپیل کی سماعت ریکارڈ ہو گی اور باضابطہ نقل بھی تیار کی جائے گی۔ ریکارڈنگ اور نقول عوام کے لیے دستیاب ہوں گی، 50 روپے فی صفحہ فیس کی ادائیگی پر عدالتی کارروائی کی تصدیق شدہ کاپی عدالتی کارروائی کے لیے استعمال ہو سکے گی۔ ان ساری تبدیلیوں کے بعد اب بھی کوئی حکومتی رکن، وزیر، حلیف یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا، جس طرح آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے اس سے یہ تو فیصلہ ہوگیا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ آرمی کی اجازت اور ہدایات کی روشنی میں، ورنہ جمہوریت کے دعویدار اور ووٹ کو عزت دینے کے رعویدار اور ملک میں تبدیلی کے دعویدار فوج کو سیاست میں دعوت دینے کے بجائے اس کی سیاست میں مداخلت ختم کرسکتے تھے لیکن اس کے لیے فارم 45 پر پارلیمنٹ پہنچنا ضروری ہے فارم 47 والے اور آر ٹی ایس والے یہی کرسکتے تھے۔ اس صورتحال پر کسی سرکاری رکن سے کچھ پوچھا جائے تو ان کی کیفیت کاٹو تو لہو نہیں کے مصداق ہوتی ہے، اس صورتحال پر غیر ملکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکا کا مختصر تبصرہ نہایت جامع ہے اس کے مطابق بل پاس ہونے کے بعد کئی حکومتی ارکانِ اسمبلی سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا۔ ایک حکومتی رکن نے تو نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر صرف اتنا کہا کہ جوکارنامہ ہم نے کیا ہے اس پر بات کریں؟ ہاں یہ اپنے ان کارناموں پر بات کیا کریں گے، کسی کو منہ بھی نہیں دکھا سکیں گے۔ صورتحال کو قانونی مارشل لا سے تعبیر کیا جارہا ہے، اور یہ سب چھبیسویں ترمیم کا شاخسانہ ہے بلکہ ہے تو فارم 47 کا، کہ ایسی ترامیم کی جارہی ہیں جن میں ترمیم کرنے والے اپنے ہی ہاتھ پائوں کاٹ رہے ہیں۔ اس پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے چھبیسویں ترمیم کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا ہے اور فل کورٹ میں سماعت کا مطالبہ کیا ہے، شاید عدالت عظمیٰ کے ججوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ ان کو عضو معطل بنادیا گیا ہے اور فل کورٹ کے ذریعہ وہ اپنے اختیارات اور رہی سہی عزت بچا سکیں گے، ورنہ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں اب کچھ بچا نہیں ہے سب لٹادیا گیا ہے۔ طاقت کا ایک ہاتھ میں ارتکاز، عہدے کی طوالت بلکہ تاحیات مرکز طاقت رہنے کی خواہش نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔