نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت کی سپریم کورٹ نے مدارس پر پابندی سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ۔ مسلمان تنظیموں اور مدارس کے ذمے داراران نے اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کو اپنے فیصلے میں مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ’ و سیکولرازم کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو وہاں سے نکال کر ریگولر اسکولوں میں داخل کرائے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر منگل کے روز چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر 22 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قانون کو اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب ریاست میں قانون سازی کی اہلیت نہ ہو۔عدالت کے مطابق مذکورہ ایکٹ کا مقصد مدارس میں تعلیم کی سطح کو معیاری بنانا ہے۔چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ سیکولرازم کا مطلب جیو اور جینے دو ہے۔ مدرسہ ایکٹ مدارس کے یومیہ کام کاج میں مداخلت نہیں کرتا۔ ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ مدارس کو ریگولیٹ کرنا قومی مفاد میں ہے۔ اقلیتوں کو الگ تھلگ کر کے ملک کی سیکڑوں سال کی جامع ثقافت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک سوال کے جواب میں اترپردیش کی حکومت نے کہا کہ وہ اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 ء کے ساتھ کھڑی ہے ، الہ آباد ہائی کورٹ کو پورے قانون کو غیر آئینی قرار نہیں دینا چاہیے تھا۔ واضح رہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں تقریباً ساڑھے 23 ہزار مدارس ہیں جن میں سے 16ہزار 513 ریاستی حکومت میں رجسٹرڈ ہیں۔ ریاستی حکومت 560 مدارس کو مالی امداد بھی دیتی ہے ۔