چین نے سفارتی و معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا اور اپنی مارکیٹ کو عالمی منڈی سے جوڑا

94

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) چین نے سفارتی، معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا‘ اپنی مارکیٹ کو عالمی منڈی سے جوڑا‘ سیاحت کو انڈسٹری میں تبدیل کیا‘ سی پیک عالمی اقتصادی پلان کا حصہ ہے‘ چین دنیا کی سب سے بڑی آٹوموٹو مارکیٹ ہے ‘ بیٹری اور الیکٹرک گاڑیوں میں جدت لا رہا ہے‘ 9 ممالک کے لیے ویزا فری پالیسی اختیار کی‘ آئندہ ہفتے چائنا ایکسپو میں500 کمپنیاں شرکت کریں گی‘ نمائش سے ترقی پذیر ممالک کو بھی فائدہ ہوگا۔ان خیالات کا اظہارسینیٹر (ر)مشاہد حسین سید، پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیککے سابق سیکرٹری نسیم خالد اورسید جاوید ترابی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’چین نے گزشتہ 40 سال میں 70 کروڑ عوام کو غربت سے کیسے باہر نکالا؟‘‘ مشاہد حسین سید نے کہا کہ چین نے اپنی بہترین سفارت کاری اور معاشی سرگرمیاں پیدا کرکے اپنے عوام کے 70 فیصد حصے کو غربت سے باہر نکالا ہے‘ چین نے ایک بہت بڑا معاشی پلان اپنے ملک میں پیش کیا ‘سی پیک بھی اسی معاشی پلان کا ایک حصہ ہے‘ چین نے سیاحت کو بھی فروغ دیا ہے اور اپنی مارکیٹ کو عالمی منڈی تک پہنچایا ہے‘ ابھی حال ہی میں چین نے یکطرفہ طور پر سلواکیہ کے لیے ویزا فری سہولت متعارف کروائی ہے‘ یہ سب کچھ اس نے ملک میں غربت ختم کرنے کے لیے کیا ہے۔ نسیم خالد نے کہا کہ چینی قیادت نے اپنے ملک اور مختلف ممالک کے درمیان اہلکاروں کے تبادلے کو مزید آسان بنانے کے لیے ویزا فری ممالک کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ 8 نومبر 2024ء سے سلوواکیہ، ناروے، فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ، اندورا، موناکو، لیکٹن اسٹائن اور جنوبی کوریا کے عام پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے آزمائشی بنیادوں پر ویزا فری پالیسی نافذ کی جائے گی‘31 دسمبر 2025ء تک 9 ممالک کے عام پاسپورٹ ہولڈرز جو کاروبار، سیاحت، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے اور ٹرانزٹ کے لیے چین آتے ہیں، انہیں 15 روزہ ویزا فری انٹری کی اجازت ہو گی‘ چین اپنے ملک میں غربت ختم کرنے میں بہت سنجیدہ ہے اور ٹھوس اقدامات کر رہا ہے‘ چین صنعت کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے‘ وہ اپنی منڈیوں میں وسعت لارہا ہے‘ رکن ممالک کے مابین بڑے اختلافات اور یورپ میں بے حد مخالفت کے باوجود یورپی یونین نے چین سے درآمد کی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں پراضافی محصولات عاید کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ بہت سے یورپی کاروباری اداروں کی شخصیات اور اب ماہرین کا خیال ہے کہ چین یورپی آٹو انڈسٹری کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ میں رکاوٹ بنے گا جبکہ چین یورپ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچائے گا اور آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ حسنین کاظمی نے کہا کہ چین تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے‘ یورپی یونین کا فیصلہ نہ صرف تجارتی تنازعات کو بڑھائے گا بلکہ عالمی آزاد تجارت کو شدید نقصان پہنچائے گا اور چین اب آٹو انڈسٹریز میں گھس گیا ہے جس کا زیادہ تر فائدہ تو چینی عوام کو ہی ہوا ہے‘ زیادہ تر یورپی آٹو کمپنیاں ان محصولات کی بہت مخالف ہیں لیکن چین اپنا کام کر رہا ہے اس وقت چین دنیا کی سب سے بڑی آٹوموٹو مارکیٹ ہے اور بیٹری اور الیکٹرک گاڑیوں کے شعبے میں جدت طرازی چین میں ہو رہی ہے‘ یہ کمپنیاں نہ صرف چینی صارفین کھونے سے خوفزدہ ہیں بلکہ ان ایجادات سے بھی محروم ہیں جو اس وقت چین میں ہو رہی ہیں‘ اب چین میں ساتویں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو اگلے ہفتے شروع ہوگی‘297 فارچیون 500 کمپنیاں اور صنعت کے معروف کاروباری ادارے اور مختلف ممالک کے تقریباً 800 خریدار گروپ اس میں شرکت کریں گے‘ شرکا کی تعداد ایک نئے ریکارڈ پر پہنچ جائے گی‘ سی آئی آئی ای کا انعقاد چین کی جانب سے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ایک اہم اقدام ہے‘ نمائش میں شریک اداروں کے اعداد و شمار چین کی سپر مارکیٹ کی کشش کو مکمل طور پر ظاہر کرتے ہیں‘ اس سال کا سی آئی آئی ای37 سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کو قومی اور انٹرپرائز نمائشوں میں حصہ لینے کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو اقتصادی گلوبلائزیشن کے عمل میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے۔سید جاوید ترابی نے کہا کہ کشادگی سی آئی آئی ای کا بنیادی تصور ہے اور یہ چین کی ترقی کی ایک منفرد علامت بھی ہے‘ چین اعلیٰ سطحی کھلے پن کو فروغ دے کر اعلیٰ معیار کی ترقی حاصل کر رہا ہے‘ ہم سی آئی آئی ای کو تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ایک اہم موقع کے طور پر دیکھتے ہیں تاکہ کھلے پن کے کیک کو بڑا بنایا جاسکے اور تعاون کی فہرست کو طویل کیا جاسکے‘ اس سے چین کی بڑی مارکیٹ کے مواقع کو تمام ممالک میں بانٹا جائے گا اور تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔