جسے پِیا چاہے وہی سْہاگَن کیا ’’ٹرمپ‘‘ کیا ’’کمیلا‘‘

303

امریکا کے انتخابات کا سرکاری اعلان 13دسمبر 2024 کو ہوگا۔ امریکی دستور کے مطابق سرکاری اعلان امریکا کے نائب صدر کرتے ہیں اس لیے کمیلا ہیرس رواں سال 13دسمبر کو اپنی جیت یا ہار اعلان خود کریں گی۔ امریکا میں انتخابات کا دن تو اس سال 5 نومبر ہی ہے لیکن میل کی مدد سے 03 نومبر کی شام تک 12 لاکھ سے زائد امریکی اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔ یاد رہے کہ 2020ء سے، امریکی اپنا ووٹ ای میل نہیں ’’میل‘‘ کی مدد سے ڈال سکتے ہیں امریکی اس سہولت سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا کا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے امریکی ووٹر رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹ دیں گے لیکن 20 جنوری 2025ء کو امریکا کے وقت کے مطابق دن کے 12 بجے کون سا امیدوار انجیل ِ مقدس پر ہاتھ رکھ کر امریکا کے صدر ہونے کا حلف اُٹھائے گا اس فیصلے کا سرکاری اعلان 13 دسمبر کو ہوگا۔

دنیا بھر کی طرح امریکا میں بھی اگرچہ رائے عامہ کے جائزے اور پولز اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ کون سا صدارتی امیدوار ملک بھر میں کتنا مقبول ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی کرنے کا یہ ایک درست طریقہ ہے۔ حقیقت یہ ہے بھارت، فرانس اور برطانیہ میں ہونے والے انتخابات میں رائے عامہ کے جائزے اور پولز کے برعکس انتخابی نتائج نے رائے عامہ کے جائزے اور پولز کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا میں بھاری اکثریت کے ووٹوں سے صدر کا انتخاب نہیں ہوتا، اس کے بجائے امریکی میں الیکٹورل کالج کے نظام کا استعمال ہے جس میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے ووٹ دیے جاتے ہیں۔ ان الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے اور فتح کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اسی کالج میں سارے انتخابی گیم کو اُلٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ 2020ء انتخابات کے نتائج 10 نومبر تک آتے رہے لیکن انتخاب کی رات کو ٹرمپ الیکٹورل کالج کی تعداد 190 سے اچانک 210 تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد ایسا بریک لگا کہ بائیڈن الیکٹورل کالج کے ووٹ کی 270 سے بڑھ کر 300 سے تجاوز کر گئے لیکن ٹرمپ کا الیکٹورل کالج 210 سے ایک بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔

غزہ کے مقتل میں فلسطینیوں کے خلاف جاری اسرائیل کا قتل عام اور مشرق وسطیٰ کے مسائل کسی بھی امریکی صدارتی امیدوار کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر حال ہی میں غزہ اور لبنان کی جنگوں سے خطے میں ہونے والی خطرناک پیش رفت کی روشنی میں مشرق وسطیٰ کے مسائل کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ری پبلکن امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ اپنی تقریباً روزانہ کی جانے والی فون کالز کے بارے میں شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ سابق صدر نے یہ بھی عہد کیا کہ اگر وہ 5 نومبر کو صدارتی الیکشن جیت جاتے ہیں تو اسرائیلی قیادت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قتل عام میں بائیڈن کی طرح ٹرمپ بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالیں گے۔

دوسری طرف ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان آخری عوامی فون کال 17 اکتوبر کی ہے۔ یہ صورت حال ٹرمپ اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کمیلا ہیرس کے مشرق وسطیٰ کے مسائل بالخصوص اسرائیل کے ساتھ جنگ سے نمٹنے کے طریقے پر روشنی ڈالتی ہے۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل ٹرمپ اور کمیلا ہیرس دونوں نے اسرائیل کو تقسیم کرنے والے مسئلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ ہار گئے تو اسرائیل دو سال بھی موجود نہیں رہے گا۔ ادھر ہیرس کی مہم نے اسرائیل کے بارے میں ان کی بیان بازی کو یہود مخالف قرار دے دیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ اور ہیرس اسرائیل سے متعلق متعدد مسائل پر متفق نہیں ہیں۔ اسرائیل کے لڑائی لڑنے کے انداز اور دنیا میں امریکا کے کردار کے بارے میں بھی دونوں کا نقطہ نظر مختلف ہے۔

غزہ دنیا بھر کی سیاست کا تعین کر رہا اور اس میں امریکا کے انتخاب بھی ہیں۔ امریکی انتخابات میں 50 ریاستیں ہیں لیکن ان میں سے بیش تر ہر مرتبہ ایک ہی جماعت کو ووٹ دیتی رہی ہیں، ایسی چند ہی ریاستیں ہیں جہاں صدارتی امیدواروں کی جانب سے اپ سیٹ کی امید کی جاتی ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ملک کے صدر بننے کے خواہش مند امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں اور انہیں ’بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس‘ یا کانٹے کے مقابلے والی ریاستیں کہا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب 2020 کے صدارتی انتخاب کا ’ری میچ‘ لگ رہے تھے تاہم جولائی میں صورتحال نے پلٹا اْس وقت کھایا جب صدر جو بائیڈن نے اس دوڑ سے دستبردار ہوتے ہوئے نائب صدر کمیلا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟

صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے دن تک رائے عامہ کے تمام جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آ رہے تھے اور جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کے جائزوں میں بھی کہا گیا کہ کمیلا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہو گی۔ لیکن کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم کے آغاز کے بعد امریکا کی صدرات کی دوڑ سخت ہو گئی اور انہوں نے قومی سطح کے رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے حریف پر معمولی برتری بھی حاصل کی جسے وہ تاحال برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے دن تک رائے عامہ کے تمام جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آ رہے تھے اور جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کے جائزوں میں بھی کہا گیا کہ کمیلا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہو گی۔ لیکن کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم کے آغاز کے بعد امریکا کی صدرات کی دوڑ سخت ہو گئی۔ اب انہیں بڑے سروے کے مطابق 45 اور ٹرمپ کو 47 فی صد برتری حاصل ہے لیکن ’’جسے پِیا چاہے وہی سْہاگَن‘‘۔