اس سے پہلے بھی راقم نے انہی صفحات پر جاپان میں بادشاہت اور تخت شاہی کی وراثت کو موضوع گفتگو بنایا، مگر حال ہی میں ایک ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جس کے بعد اس موضوع پر بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اقوام متحدہ کی خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کی کمیٹی (سی ای ڈی اے ڈبلیو) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ تخت کی وراثت سے متعلق جاپانی قانون صنفی مساوات اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے معاہدے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس معاملے پر جاپانی حکومت نے اپنا شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے رواں سال 30 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی کمیٹی کو جاپان کے شاہی جانشینی کے قانون میں ترمیم کی سفارش واپس لینے پر زور دیا۔ واضح رہے کہ موجودہ قانون کے مطابق جاپان کے شاہی خاندان میں تخت کا حق صرف مرد وارثوں کو ہے۔
جاپان کے چیف کابینہ سیکرٹری یوشی ماسا ہایا ئیشی نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کی سفارشات پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’انتہائی افسوسناک‘‘ قرار دیا، انہوں نے کہا ہے کہ جاپانی حکومت نے باضابطہ طور پر اس تجویز پر احتجاج کرتے ہوئے اسے رپورٹ سے حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہایا ئیشی کے مطابق، جاپان میں تخت کی جانشینی ایک ایسا معاملہ ہے جو جاپانی قوم کی بنیادوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اس معاہدے کے مقاصد کی روشنی میں شاہی جانشینی کے قانون کو موضوع بنانا کمیٹی کے لیے انتہائی نامناسب ہے۔ جاپان کے ردعمل سے یہ تو بہر حال ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی قدیم ثقافتی روایات اور صنفی مساوات کے بین الاقوامی اصولوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ جاپان میں جانشینی کا قانون، تخت کو صرف مرد وارثوں تک محدود رکھتا ہے، ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔
شاہی خاندان جسے جاپانی ثقافت اور تاریخ کے ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کو جدید معاشرے میں بھی تبدیلیوں سے محفوظ رکھا گیا ہے۔اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو جاپان کا یہ موقف کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر چند کہ ماضی میں تخت شاہی پر چند خواتین ملکائیں بھی براجمان رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ملکہ ہیمیکو کا نام بھی لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے بھی انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے اپنے بھانجے شہزادہ شوتک تھائشی کو معاونت کے لیے سامنے رکھا تھا۔ مزید برآں جاپان کے قدامت پسند حلقوں نے ہمیشہ روایتی، مردوں کی جانشینی کے حق کو برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے اور اسے شاہی خاندان کے استحکام اور جاپان کی شناخت کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سفارش کو جاپان میں قومی روایت میں بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور یہ خدشہ ہے کہ اس طرح کی سفارشات شاہی خاندان کی نمائندگی کرنے والی مخصوص ثقافتی اور تاریخی قدروں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ تاہم، جاپان میں صنفی مساوات کے حق میں بحث میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب جاپان اپنی عالمی حیثیت کو ایک ترقی پسند معاشرے کے طور پر مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ عوامی رائے بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہی ہے، اور کچھ سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جاپان کے عوام کی ایک بڑی تعداد شاہی جانشینی میں خواتین کی شمولیت کی حمایت کرے گی۔ تاہم، حکومت کی جانب سے موجودہ قانون کی حمایت قدیم روایات اور جدید صنفی اصولوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ سفارش، جو جاپان کی بین الاقوامی معاہدوں پر عمل پیرا ہونے کو اجاگر کرتی ہے، ممکنہ طور پر قدامت پسند خیالات کو تقویت دے سکتی ہے جو شاہی خاندان کو جاپان کی قومی شناخت کا مرکز سمجھتے ہیں اور اسے عالمی صنفی مساوات کے دائرہ کار سے باہر سمجھتے ہیں۔ جاپان کا یہ ردعمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنی ثقافتی وراثت کو برقرار رکھنے اور صنفی مساوات کے جدید اصولوں کو اپنانے کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بحث جاپانی معاشرت میں تبدیلیوں پر آئندہ برسوں میں بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔