جرمنی کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ جرمنی ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کی معیشت ایک مدت تک انتہائی مستحکم رہی ہے۔ جرمنی کا شمار بنیادی طور پر ایسی معیشتوں میں ہوتا ہے جو کسی کی خرابی سے زیادہ اپنی اچھائیوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے پر یقین رکھتی ہیں۔ جرمن سیاست کسی کے بگاڑ سے کچھ بٹورنے کے بجائے اپنی خوبیون پر بھروسا کرتی آئی ہے۔ جرمن عوام ایسے سیاست دانوں کو بالکل پسند نہیں کرتے جو قومی ترقی یقینی بنائے رکھنے کے لیے کسی بھی ملک یا خطے کے لیے الجھنیں پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ جرمن معیشت کے لیے اس وقت چند چیلنج انتہائی پریشان کن ہیں۔ ان میں بعض تو ایسے ہیں جن سے نپٹنے کے لیے جرمن سیاست دانوں کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ جرمن معیشت میں ساخت کے حوالے سے خرابیاں اور کمزوریاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ عالمی تجارت، جدت طرازی اور ماحول کی گراوٹ کے حوالے سے جرمن معیشت کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوریوں کو حقیقی چیلنج کے طور پر لینے میں تساہل برتنے سے یہ پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ اس وقت جرمنی کو کس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
2000 کی دہائی کے بعد پہلی بار جرمن معیشت کو کساد بازاری کا سامنا ہے اور یہ کساد بازاری کسی حد تک مایوسی کو جنم دے رہی ہے۔ رواں سال جرمنی دنیا کی بڑی معیشتوں میں خراب ترین کارکردگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ معاشی نمو کا سلسلہ تھما ہوا ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے اور برآمدات کا گراف گرچکا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر بھی الجھنوں کا شکار ہے۔ 2025 میں جرمن معیشت کا پھیلاؤ صرف 0.8 فی صد تک ہوگا۔ دنیا بھر کی بڑی اور مضبوط معیشتوں میں اتنی سُست رفتاری جرمنی کے علاوہ صرف اٹلی میں پائی جارہی ہے۔
جرمن معیشت کے استحکام کا مدار بہت حد تک پریمیر ٹیکنالوجیز کی حامل اشیا کی برآمد پر رہا ہے۔ کیمیکلز اور دیگر توانائی بدوش شعبوں میں گرتی ہوئی پروڈکشن اور کاریں بنانے کے شعبے میں چین کی طرف سے غیر معمولی مسابقت نے جرمن معیشت کے لیے مشکلات بہت بڑھادی ہیں۔ برآمدات پر غیر معمولی انحصار کرنے والا جرمن معیشتی ماڈل اب سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔ جرمن انڈسٹری کی ویلیو چین کا 20 فی صد توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث ختم ہوکر رہ جائے گا۔ دوسری طرف کیمیکلز کے شعبے میں جرمنی کو پہنچنے والا نقصان کم و بیش ایک تہائی ہوگا۔ جرمنی میں چھوٹے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں کو Mittlestand کہا جاتا ہے۔ یہ ادارے جرمن معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔ جرمنی میں ملازمت پیشہ افراد کی تعداد 4 کروڑ 59 لاکھ ہے جن میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو چھوٹے اور درمیانے حجم کے اداروں نے کام پر لگا رکھا ہے۔ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں بڑے کاروباری ادارے زیادہ لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ بڑے کاروباری ادارے نئی ٹیکنالوجیز کو وسیع پیمانے پر بروئے کار لاتے ہوئے معیشت میں جدت کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں اور ٹرن اوور کا گراف بھی بلند کرتے ہیں۔
جرمنی میں معاشی بہبود یا بہبودِ عامہ پر بہت زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی معیشتی خرابی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ جرمن بجٹ 500 ارب یورو کا ہے جس میں سے 212 ارب یورو (یعنی تقریباً 35 فی صد) معاشرتی بہبود سے متعلق شعبوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ بجٹ میں معاشرتی بہبود کے لیے اتنی بڑی رقم مختص کرنے سے معیشت کے بنیادی شعبوں کو خاطر خواہ فنڈز نہیں مل پاتے۔ جرمن معیشت کا بنیادی ڈھانچا فرسودہ ہوچکا ہے۔ اس ڈھانچے کو نئی زندگی درکار ہے یعنی اس پر زیادہ فنڈنگ کی جانی چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ وفاقی بجٹ کا صرف 2.7 فی صد معیشت کے بنیادی ڈھانچے کی اپ ڈیٹنگ اور اپ گریڈنگ پر خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ رقم جرمنی کی خام قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا صرف 0.4 فی صد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی کے لیے سب کچھ بْرا ہی چل رہا ہے۔ بعض معاملات میں وہ بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتا آیا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ جرمنی کے سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 64 فی صد کے مساوی ہیں جبکہ برطانیہ کے سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 97 فی صد، فرانس کے سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 110 فی صد، امریکا کے سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 125 فی صد اور اٹلی کے سرکاری قرضے جی ڈی پی کے 141 فی صد کے مساوی ہیں۔
جرمنی میں توانائی کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ کاروباری اداروں اور عوام پر اس حوالے سے بہت دباؤ ہے۔ ٹیکس بہت زیادہ ہیں اور سوشل سیکورٹی کنٹری بیوشن بھی غیر معمولی ہے۔ معیشتی ڈھانچے کی کمزوری اس پر اضافی تازیانہ ہے۔ چند برس پہلے تک جرمنی ماحول میں تبدیلیوں کے حوالے سے جدت طرازی کی راہ پر گامزن ہوسکتا تھا مگر اب اس کی مالی حیثیت اتنی مضبوط نہیں رہی کہ اس حوالے سے کچھ کرسکے۔ جرمنی میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں کمی لانے سے متعلق 85 فی صد سرمایہ کاری نجی کاروباری ادارے کر رہے ہیں۔ اگر جرمنی کو آگے بڑھنا اور بہت دور تک جانا ہے تو لازم ہے کہ معیشتی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے، معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے پر توجہ دی جائے، تمام معاملات نجی شعبے کے حوالے نہ کیے جائیں بلکہ حکومت بھی اپنا کردار پورے جوش و خروش سے ادا کرے۔
(دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام)