جن حکمرانوں سے ملک کے دوچار چھوٹے چھوٹے ادارے نہیں چل سکتے وہ ملک چلانے کا دعوی کیونکر کرسکتے ہیں لیکن ایسا تو برسہا برس سے ہورہا ہے، پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، شپ یارڈ تباہی کے قریب ہے کے ای ایس سی نہیں چل سکی ، پی ٹی سی ایل نہیں چلا سکے بیچ دی ، ریلوے بیچنے کی باتیں ہوتی رہیں اور پی آئی اے کو تو بیچنے کیلیے رکھ ہی دیا۔ لیکن اب پتا چلا کہ ان حکمرانوں کے بس میں تو کوئی ادارہ چلانا یا اسے بیچنا بھی نہیں ہے۔ پی آئی کی نجکاری کا بڑا شور تھا۔ نجکاری کمیٹی بنی بولیاں لگانے کا اعلان ہوا اور چھ اداروں نے دلچسپی ظاہر کی مگر آخر میں ایک رہ گیا ، اور جو رہ گیا اس نے پچاسی ارب کے مطالبے کے جواب میں صرف دس ارب کی بولی دی ، اس سے زیادہ کسی کی بے عزتی نہیں کی جاسکتی۔ اب یہ بحث چھڑگئی ہے کہ پنجاب کو دلچسپی ہے اور کے پی کے کو دلچسپی ہے،یہ خرید سکتے ہیں یا نہیں اگر یہ پی آئی اے خریدنے کے اہل بھی ہیں تو بھی انہیں نہیں خریدنی چاہیے۔ کون سا صوبہ ہے جس کے عوام بنیادی حقوق کے معاملے میں، مطمئن ہیں۔ تعلیم عام اور آسان ہے ،سڑکیں، پانی بجلی ،گیس صفائی صحت کی سہولیات موجود ہیں، اس معاملے میں سب ایک دوسرے سے منفی مقابلے پر ہیں کون عوام کا کتنا استحصال کرسکتا ہے اور بڑھ چڑھ کر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ پنجاب بلا شبہ بڑا صوبہ ہے لیکن وہ اسکول کالج یونیورسٹی کی تعلیم عوام کے لیے آسان کرے ، اورآجکل تو سب کام چھوڑ کر آلودگی کا خاتمہ کرے ، خیر یہ الگ بحث ہے لیکن وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ قومی ادارے کو اونے پونے فروخت نہیں کرسکتے، کوئی ایک پارٹی بتا دیں جس نے پی آئی اے کا یہ حال نہ کیا ہو، صوبوں کی دلچسپی پر اعتراض نہیں،پی آئی اے چلانا یا ٹھیک کرنا میرے ذمے نہیں بلکہ میری ذمہ داری صرف پی آئی اے کو بیچنا ہے،لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں عبدالعلیم خان کا کہناتھاکہ پی آئی اے کی نجکاری کیلئے سارا عمل چل چکا تھا، پی آئی اے کی نجکاری کے فریم ورک میں تبدیلی کا اختیار نہیں۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کا خسارہ عوام نہیں اٹھا سکتے اس لیے بیچ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں پی آئی اے کو اس حال میں پہنچانے کی ذمہ داری کس کس کی ہے؟ پی آئی اے کوبیچنا یا خریدنا الگ الگ بات ہے، میرے پاس انحراف کا کوئی اختیارنہیں ہے، پی آئی اے کا خسارہ 830 ارب روپے تھا اور پی آئی اے کی نجکاری کاعمل میرے آنے سے پہلے شروع ہو چکاتھا۔ ان کی باتیں بالکل بجا ہیں انہوں نے اصل بات کی جانب نشاندہی کی ہے کہ لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کس کس نے ادارے کی تباہی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔تاہم ان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس ادارے کی تباہی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا ہے براہ راست نہ ہو لیکن وہ گزشتہ بیس سال سے سیاست اور حکومتوں میں رہے ہیں، دس سال کنگز پارٹی ق لیگ میں تھے اور پھر دس سال کنگز کی پسندیدہ پارٹی میں رہے ، علیم خان صاحب 2003 سے عملی سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہیں۔2003 اور 2008 میں مسلم لیگ ق میں رہے ،وہ 2012 سے 2022 تک پی ٹی آئی میں رہے وزارتیں بھی سنبھالیں،حتی کہ 2022 میں پی ڈی ایم کی عدم اعتماد کی تحریک میں پی ٹی آئی سے بغاوت کرکے اس کی حکومت ختم کرنے میں حصہ ڈالا۔ یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ جو اپنی پارٹی سے مخلص نہیں وہ پی آئی اے جیسے اداروں سے کیسے مخلص ہوسکتا ہے تحریک عدم اعتماد کے بعد استحکام پاکستان پارٹی بنائی اور اب اس کے پلیٹ فارم سے وزیر ہیں اتنے اہم پروفائل والا وزیر خود کو ملک کے اہم ادارے کی تباہی سے یکسر بی الذمہ قرار نہیں دے سکتا ، انہوں نے دوسروں کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کو کہا ہے ایک مرتبہ وہ بھی یہ کام کرلیں۔ براہ راست نہیں تو ان کی آنکھوں کے سامنے پی آئی اے کی تباہی ضرور ہوئی ہے لہٰذا وہ بھی غور کریں، جہاں تک ادارہ چلانے کی صلاحیت کی بات ہے تو وزیر نجکاری کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر انہیں یہ ادارہ دیا جائے تو وہ چلالیں گے ، بالکل ایسا ہی ہو گا سوال تو یہی ہے کہ سرکاری شعبے میں کوئی کام کیوں نہیں ہوسکتا ، پاکستان اسٹیل بند ہوسکتی ہے حکمرانوں کی اسٹیل ملز چلتی رہتی ہے بلکہ ائیر لائن بھی چلتی رہتی ہے۔حکمرانوں کا ہر کاروبار دوگنا چوگنا ترقی کرتا ہے اور سرکاری ادارہ تباہی کی طرف جاتا ہے ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا ذاتی مفاد جس چیز میں ہوگا وہ کاروبار چل جائے گا۔وزیر محترم نے ایک اور بڑی زبردست بات کی ہے کہ پی آئی اے کا خسارہ عوام نہیں اٹھا سکتے ، مگر عوام تو حکومتوں کا خسارہ اٹھانے پر مجبور ہیں، پی آئی اے کی اونے پونے نجکاری تو نہیں ہونی چاہیے لیکن اس بات کا جواب کون دے گا کہ ادارے کی تباہی میں عوام کا کتنا ہاتھ تھا۔ اس کی نجکاری کی نوبت کیوں آئی ، اور اگر خسارہ ہی بنیاد ہے تو حکومت ہی کی نجکاری ہونی چاہیے سوائے خسارے کے حکمران قوم کو دے کیا رہے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ حکمران، پی آئی اے کی نجکاری چاہ بھی نہیں سکتے کیونکہ ،سرکاری ادارے کے طیارے نجی یا سرکاری دوروں میں ہفتہ بھر ساتھ رکھنے کا مزا پرائیویٹ یا اپنی ائیر لائن کے طیاروں میں تو نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے پنجاب حکومت ائیر پنجاب ضرور لانچ کرے اور اس کے طیارے اپنے خاندان کے وزرا کے دوروں کے لیے مختص کردے اور کے پی کے والے بھی اپنی ائیر لائن ضرور لانچ کریں کیونکہ ان کے وزیر اعظم کو تو گھر سے وزیر اعظم ہاوس تک آنے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہوتی تھی، اپنی نئی ائیر لائن میں ہیلی کاپٹر سروس بھی رکھیں، پی آئی اے پر نظر نہ رکھیں ، حکمرانوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری چھوڑیں اس کو پروفیشنل بنیادوں پر چلائیں خود مداخلت نہ کریں۔ موصوف حالات سے باخبر نہیں ہیں تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سرکاری پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی یونینیں، وزراء اور حکمرانوں کی خواہش پر اضافی بھرتیاں، محض صاحب بہادر کے چند دوروں کیلیے غیر بخش روش کا اجراء، کمیشن کھانے اور طیاروں کی خریداری میں بھی گھپلے، پی آئی اے کے مسافروں کیلیے خریدا گیا پانی شہر کے ہوٹلوں کو کسی کے ذریعے فروخت ہوتا تھا۔ کینٹین اور دوسری چیزوں کے ٹھیکے میں کون مداخلت کرتا تھا۔ بھاری معاوضوں پر حکمرانوں کے لوگوں کو کون بھرتی کرتا رہا۔ جب ساری نالائقیوں کی سرپرستی حکومتیں کرتی رہی تو نجکاری کرکے جان نہ چھڑائیں بلکہ پی آئی اے کی جان حکمران خود چھوڑیں پروفیشنل لوگوں کو کام کرنے دیں۔