امریکا میں 5نومبر کو صدارتی انتخابات کا میدان سجے گا۔ یہ انتخابات سنسنی خیز حالات کے باعث عالمی میڈیا کی توجہ کا محور رہیں گے۔ حالیہ الیکشن اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ اس میں ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے مختلف پینترے بدلے،جن میں سب سے اہم صدر جوبائیڈن کی نامزدگی سے رجوع کرکے نائب صدر کملا ہیریس کو ٹرمپ کے مقابل کھڑا کرنا شامل ہے۔ گزشتہ 3ماہ کے دوران ملک بھر میں کیے گئے سروے رپورٹوں میں دونوں امیدواروں کی مقبولیت کے حوالے سے اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر جوبائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے میں ناکامی کے بعد کملا ہیریس کی صورت میں شاندار واپسی کی اور ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے آگے بند باندھ دیا۔ نامزدگی کے بعد کملا ہیریس عوامی جائزوں میں ٹرمپ پر سبقت لیتی نظر آئیں،تاہم چند ہفتوں کے دوران ٹرمپ ایک بار پھر پیش قدمی کرتے ہوئے شہ سرخیوں کا مرکز ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں امریکا کا نظام بہت مختلف ہے۔ وہاں نہ تو جرمنی اور آسٹریا کی طرح چانسلر ہوتا اور نہ ہی برطانیہ ، بلجیم، جاپان کی طرح بادشاہ، ایشیائی ممالک کی طرز پر وزیراعظم کے بجائے ملک کا صدر ہی نظام کار کا سربراہ ہوتا ،جو کانگریس کی مدد سے حکومت چلاتا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے کچھ دلچسب حقائق اور معلومات پیش کی جارہی ہیں۔
کن نشستوں پر الیکشن ہوں گے؟
صدارتی انتخاب کے امیدواروں نائب صدر کملا ہیریس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ قومی، ریاستی اور مقامی سطح پر بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی تمام 435 نشستوں پر الیکشن ہو گا جو کہ ہر 2سال کے بعد منعقد ہوتا ہے کیوں کہ اس کے ارکان 2سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔امریکی مقننہ کے دوسرے ایوان سینیٹ کی 100 میں سے 34 نشستوں پر الیکشن بھی ہوگا۔ 11ریاستوں میں گورنروں کے الیکشن بھی اسی روز ہوں گے۔ اس کے علاوہ ریاستی اور مقامی عہدوں کے لیے ہزاروں مقابلے ہوں گے جن میں ریاستوں کے قانون سازوں، شہروں کے میئر اور میونسپل سطح پر مختلف عہدوں کے انتخابات شامل ہیں۔ساتھ ہی کئی ریاستوں میں ریفرنڈم بھی ہو رہے ہیں جن میں ووٹروں سے اسقاط حمل، ٹیکس پالیسی اور گانجا کے استعمال جیسے مسائل کے بارے میں رائے لی جائے گی۔
ووٹنگ کس وقت ہو گی؟
ہر ریاست میں ووٹنگ مختلف اوقات میں ہوتی ہے۔ تقریباً تمام 50ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 5نومبر کو لوگ خود پولنگ اسٹیشن جا کر ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ بہت سی ریاستیں روایتی ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں جس کے تحت ووٹرز مخصوص جگہوں پر جا کر ووٹ جمع کراتے ہیں۔اکثر ریاستیں ’’ارلی ووٹنگ‘‘ یعنی الیکشن کے روز سے قبل بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ بعض جگہوں پر ستمبر میں ہی قبل از وقت ووٹنک کی اجازت ہوتی ہے۔
سخت مقابلے کی ریاستیں کون سی ہیں؟
7ریاستیں ایسی ہیں جن میں کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ ان ریاستوں میں پینسلوانیا، جارجیا، شمالی کیرولائنا، مشی گن، ایریزونا، وسکانسن اور نیواڈا شامل ہیں۔ان ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس،ٹاس اپ اسٹیٹس اورپرپل اسٹیٹس بھی کہتے ہیں کیونکہ مختلف اوقات میں یہاں ووٹنگ کا رجحان بدل سکتا ہے۔ ان ریاستوں کا پرپل یعنی جامنی رنگ ڈیموکریٹک پارٹی کے نیلے اور ری پلیکن پارٹی کے سرخ رنگوں کے امتزاج سے بنتا ہے۔
الیکشن میں کون ووٹ ڈال سکتا ہے؟
امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹرز کا امریکی شہری، کم از کم 18 سال کا ہونا اور رہایشی شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ یہ معیارات مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں۔ ووٹرز کے لیے لازم ہے کہ وہ ریاست میں ایک مخصوص تاریخ سے پہلے رجسٹرڈ ہوں۔ بعض ریاستوں میں سزا یافتہ مجرموں اور ذہنی طور پر غیر فعال لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ۔ عام طور پر امریکا سے باہر رہنے والے شہری ’’ایبسنٹ بیلٹ‘‘ یعنی غیر حاضر ہوتے ہونے کی صورت میں مہیا کی گئی سہولت کے تحت ووٹ ڈال سکتے ہیں۔تاہم صدارتی انتخاب کے لیے ایسے افراد جو امریکا کے پورٹو ریکو، یو ایس ورجن آئی لینڈز، گوام، شمالی مریاناس جزیرے اور امریکی سموا کے علاقوں میں رہتے ہیں ان کے ووٹ ڈالنے پر ممانعت ہے۔
الیکشن میں فتح یاب کون ہو گا؟
صدارتی انتخاب 2نمایاں امیدواروں کے درمیان ہو گا جنہیں ان کی جماعتوں، ڈیموکریٹک اور ری پبلکنز نے موسم گرما کے آخر میں اپنے اپنے کنونش میں امیدوار نامزد کیا تھا۔ تاہم بہت سے عوامی رائے کے جائزوں کے مطابق الیکشن سے کچھ ہفتے قبل ان کے درمیان مقابلہ مزید سخت ہو گیا ہے۔ کانٹے کے مقابلوں کی 7ریاستوں میں دونوں امیدواروں کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے۔
الیکٹورل کالج کیسے کام کرتا ہے؟
امریکا میں جب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ اپنے من پسند امیدوار کے لیے براہ راست ووٹ نہیں ڈال رہے ہوتے۔تکنیکی لحاظ سے وہ ’’الیکٹر‘‘ کو منتخب کرتے ہیں جوکہ الیکٹورل کالج کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ الیکٹر پھر صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج ریاست سے ریاست تک کا نظام ہے جو نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں الیکٹرز کہتے ہیں۔ ان الیکٹرز کا انتخاب ہر ریاست میں الیکشن کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ امریکی آئین ساز چاہتے تھے کہ قومی ووٹ کے بجائے صدر علاقائی انتخابات جیتیں تاکہ وہ ملک کے مختلف مفادات کی نمائندگی کر سکیں۔ 2کے سواتمام ریاستوں کے سارے الیکٹر جیتنے والے امیدوار کے حق میں جاتے ہیں، چاہے جیت کا مارجن کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔ یہ تعداد ہمیشہ اتنی ہی ہوتی ہے۔اس تعداد میں ایوان نمائندگان کے 435 ارکان، 100سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے 3ارکان شامل ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
کیا پاپولر ووٹ فرق ڈالتا ہے؟
الیکٹورل کالج میں فتح امریکی صدارت کا تعین کرتی ہے نہ کہ پاپولر ووٹ۔ امریکی نظام کے تحت یہ ممکن ہے کہ کوئی امیدوار پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بن جائے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ امیدوار جن ریاستوں میں کامیابی حاصل کرے ان کا فرق بہت تھوڑا ہو جبکہ ان ریاستوں میں جن میں امیدوار کو ناکامی ہو وہاں ووٹوں کا فرق زیادہ ہو۔ ایسا اب تک 5صدور کے الیکشن میں دیکھا گیا ہے جن میں جان کوینسی ایڈمز، ردرفورڈ بی ہیز، بینجیمن ہیریسن، جارج ڈبلیو بش اور 2016 ء کے الیکشن میں منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔ الیکٹورل کالج کے نقاد ان انتخابات کے نتائج کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ الیکشن کا نظام قومی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتا۔ دوسری طرف الیکٹورل کالج کے حامی کہتے ہیں کہ یہ نظام ان ریاستوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے جو چھوٹی ہیں یا وہ ریاستیں جو علاقے کے لحاظ سے بڑی ہیں لیکن ان کی آبادی کم ہے۔
ووٹوں کی گنتی کیسے ہوتی ہے؟
امریکا میں کوئی مرکزی الیکشن کمیٹی نہیں ہے۔ ہر ریاست ووٹوں کا شمار خود کرتی ہے۔ مقامی اور ریاستی اہلکار الیکشن کے نتائج حقیقی وقت میں فراہم کرتے ہیں۔ خبر رساں ادارے ان نتائج کو شماریاتی تکنیک کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ممکنہ فاتح امیدوار کو پروجیکٹ کرتے ہیں۔ خبر رساں ادارے تمام ووٹوں کے شمار اور ان کے باقاعدہ اعلان سے قبل ہی فاتح کو پروجیکٹ کرسکتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ بہت سے اضلاع میں تمام ووٹوں کی گنتی میں کئی روز اور ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس صورت میں نامکمل نتائج کو فاتح کا تعین کرنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔تاہم مقابلہ بہت سخت ہونے کی صورت میں خبر رساں ادارے فاتح کو پروجیکٹ کرنے سے پہلے حتمی نتائج کا انتظار کرتے ہیں۔حتمی نتائج کا اعلان ووٹ ڈالنے کے وقت کے ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
نتائج کب آئیں گے؟
الیکشن کے دن ووٹنگ شام کو ختم ہو گی۔ ووٹوں کی گنتی اور ڈاک کے ذریعے ووٹوں کی وصولی کے آخری وقت کا تعین ریاستوں کا اختیار ہے۔ اس صورت میں کچھ ریاستوں میں الیکشن کے نتائج کا علم ووٹنگ کے اگلے روز تک یا اس کے بھی بعد معلوم ہو گا۔ سخت مقابلوں کے باعث خبر رساں اداروں کے لیے الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار کو پروجیکٹ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ 2020 ء کے الیکشن کے نتائج کا اعلان کرنے میں کئی دن لگے تھے ۔ اس سال بھی 5نومبر کی ووٹنگ کے بعد صدارتی دوڑ سمیت کئی مقابلوں کے نتائج کئی دن بعد معلوم ہوں گے۔
الیکشن نتائج کی توثیق کیسے ہوتی ہے؟
ووٹوں کا جائزہ لینے کے بعد ان کی مقامی اور ریاستی سطح پر توثیق کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ریاستیں دستاویزی شکل میں جیتنے والے امیدوار کی ریاست کے الیکٹر کی شناخت کرتے ہیں۔ الیکٹر عام طور پر منتخب شدہ پارٹی کے لوگ ہوتے ہیں یا انہیں سیاسی اہلکاروں کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں الیکٹر دسمبر میں اپنی اپنی ریاستوں میں صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ جنوری میں قائم ہونے والی نئی کانگریس الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کرکے سرکاری طور پر کامیاب امیدوار کا اعلان کرتی ہے۔ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب 20 جنوری کو منعقد ہوتی ہے۔
انتخابی نشان گدھا اور ہاتھی
امریکا میں 2جماعتی نظام نافذ ہے اور صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ کا انتخابی نشان ہمیشہ گدھا اور ری پبلکن کا انتخابی نشان ہاتھی ہوتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے یہ انتخابی نشان کیسے بنے؟ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی 2بڑی جماعتیں ریپلکن اور ڈیموکریٹ کی پہچان گدھا اور ہاتھی ہے اور یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ 1828 ء میں صدارتی امیدوار اینڈریو جیکسن کو مخالفین نے گدھا اور احمق کا لقب دیا۔ جیکسن نے نہ صرف اس لقب کو خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ اپنے انتخابی پوسٹروں میں گدھے کی تصویر شامل کر لی۔ یوں گدھا ڈیموکریٹ پارٹی کا نشان بن گیا۔ ہاتھی کی کہانی قدرے مختلف ہے۔ ابراہم لنکن جب پہلے ری پبلیکن صدر کے طور پر کامیاب ہوئے، تو اسی دور میں ہاتھی ایک کارٹون کے ذریعے ری پبلیکن کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔امریکا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو صدور کی تعداد کے لحاظ سے ریپبلکن کا پلڑا بھاری ہے۔ اب تک ریپبلکن کے 18 اور ڈیموکریٹ کے 16 صدور اقتدار سنبھال چکے ہیں۔اس صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس گدھے کے قدیم انتخابی نشان اور ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ہاتھی کے نشان کے ساتھ اپنی پیشگی فتوحات کے دعوے کر رہے ہیں لیکن جیت کس کی ہوگی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
انتخابی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں کا مالی ذریعہ کیا ہے؟
ہر امریکی الیکشن کی طرح اس بار بھی سیاسی مہمات پر اربوں ڈالر بہائے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 5 نومبر کو امریکی صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات جدید انسانی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس نے جیسے ہی صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا تو اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ان کے کیمپین فنڈ میں 8کروڑ 10لاکھ ڈالر جمع ہو گئے۔ 3ماہ میں یہ رقم بڑھ کر ایک ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ادھر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے پاس بھی بہت سرمایہ ہے۔ ستمبر تک ٹرمپ نے 16 کروڑ ڈالر جمع کر لیے تھے۔ یہ رقم الیکشن اشتہارات، ریلیوں اور آن لائن مہم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ امریکا میں انتخابی مہم کی فنانسنگ کو شفاف رکھنے کے لیے کئی قوانین ہیں۔ سیاسی جماعت کو سرمایہ دیا جا سکتا ہے لیکن امیدواروں کو براہ راست فنڈز دینے کی حد مقرر ہے۔ قانونی طور پر ایک شخص ایک امیدوار کو 3ہزار 300 ڈالرز سے زیادہ رقم نہیں دے سکتا۔ امریکی انتخابات میں پولیٹیکل ایکشن کمیٹیز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ پریشر گروپ ہیں جو تیل اور گیس، ایرو اسپیس، اسلحہ ساز کمپنیوں سمیت بڑی بڑی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2010 ء میں سپریم کورٹ کے حکم پرسپر کمیٹیز بھی بنادی گئیں، جن کی فنڈنگ افراد بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیز بھی اور کارپوریشنز بھی کر سکتی ہیں۔یہ سپر کمیٹیز صدارتی امیدوار کو براہ راست فنڈ نہیں کر سکتیں لیکن امیدوار سے جڑی کسی بھی تنظیم کو جتنی رقم چاہیں دے سکتی ہیں۔ یوں امریکا کے امیر افراد یا لابیز اپنے پسند کے امیدوار کی سپورٹ پر جتنا سرمایہ لٹانا چاہیں لٹا سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں ڈالر کا اثر رسوخ پریشانی کی بات ہے کیوں کہ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ الیکشن عوام کی مرضی کا عکاس ہے یا امیر ڈونرز کی مرضی کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل متنازع ارب پتی ایلون مسک نے جولائی میں اعلان کیا کہ وہ ٹرمپ کی حامی سپر کمیٹی کو الیکشن سے پہلے ہر ماہ ساڑھے 4کروڑ ڈالر دیں گے۔ اسی طرح ایک اور قدامت پسند ارب پتی میریم ایڈلسن نے بھی ٹرمپ کی حامی کمیٹی کوساڑھے 9کروڑ ڈلر کا الیکشن چندہ دیاتھا۔