جمہوریت کے بارے میں کسی مغربی مفکر کا یہ جملہ چل نکلا ہے کہ جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہے۔ یعنی اگر جمہوریت میں کوئی کمی نظر آئے تو اسے مزید جمہوریت سے دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کے معنی کیا ہیں۔
پاکستان اور اس جیسے ملکوں کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر ملک میں فوجی حکومت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ انتخابات کرا دے اور اگر انتخابات ہو چکے ہیں اور ایک جمہوری حکومت کام کر رہی ہے تو اسے کام کرنے دیا جائے۔ اتفاق سے اگر حکومت بدعنوان اور نا اہل ہے تو اس کا علاج یہ نہیں کہ کوئی فوجی آمر آ کر خود مسلط ہو جائے بلکہ جہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہے، اس لیے چاہیے کہ حکومت کو برطرف کرنے کے بجائے نئے انتخابات اور ایک نئی بہتر حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ مگر یہ تو پاکستان اور ان جیسے ملکوں کا معاملہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا میں کیا کیا جائے؟
اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جمہوریت کے مسائل کا علاج مزید جمہوریت میں مضمر ہے۔ چنانچہ امریکا کے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے بارے میں خود مغربی مبصرین نے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈھائی سو سال بعد بھی امریکا میں جمہوریت کامل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ الیکٹورل کالج ہے۔ چنانچہ مزید جمہوریت کے فارمولے کے تحت مسئلے کا حل یہ ہے کہ الیکٹورل کالج کا ادارہ ختم کر دیا جائے اور صدر امریکا کو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔
جمہوریت ایک نظام ہے لیکن مزید جمہوریت کے فارمولے کو دیکھا جائے تو اس امر میں شک و شبے کی گنجائش نہیں رہتی کہ جمہوریت نظام سے آگے بڑھ کر ایک عقیدہ بن چکی ہے۔ نظام بنتے بگڑتے رہتے ہیں ، ایک نظام کی جگہ دوسر انتظام لے لیتا ہے لیکن عقیدہ ہمیشہ باقی رہتا ہے اور انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کا عقیدہ بدلے گا۔ اب خیر بدلنے کو تو عقائد بھی بدل جاتے ہیں لیکن بہر حال عقیدے کے سلسلے میں اْصولی بات یہی ہے کہ وہ مستقل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ جمہوریت ایک عقیدہ بن گئی ہے۔ عقیدے کا کوئی متبادل نہیں ہوتا اور جمہوریت کا بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔
یہ بات اس اعتبار سے اہم اور دلچسپ ہے کہ ہزاروں سال کی معلوم تاریخ کے تناظر میں جمہوریت کی عمر ہی کیا ہے؟ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں ہمارے خیالات و احساسات کی نوعیت یہ ہے کہ جیسے جمہوریت ہمیشہ سے تھی اور چونکہ وہ ہمیشہ سے ہے اس لیے ہمیشہ رہے گی یا اسے رہنا چاہیے۔ خیر ، مغرب میں تو جمہوریت ایک حد تک کامیاب تجربہ ہے لیکن ہمارے لیے تو یہ کامیاب تجربہ بھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود مزید جمہوریت کے بارے میں ہمارے خیالات و احساسات اہل مغرب سے مختلف نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت کے بارے میں ہماری رائے ہمارے اپنے تجربے کے بجائے مغرب کے تجربے سے ماخوذ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ایک آفاقی تصور ہے، چنانچہ وہ جس طرح مغرب کے لیے درست ہے ہمارے لیے بھی درست ہو گا۔ یہ بات بھی عقیدے سے متعلق ہے کیونکہ عقیدے میں آفاقی سچائی ہوتی ہے۔
انسانی زندگی میں کئی ایسی مثبت اقدار اور تجربے ہیں جن کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی مثلاً ان میں سے ایک قدر ’’محبت‘‘ ہے۔ ہمارے علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یعنی عشق کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ چنانچہ محبت میں کسی کا علاج مزید محبت ہے۔ اسی طرح جمہوریت کے ہر مسئلے کا حل مزید جمہوریت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس کی کوئی انتہا بھی تو ہو گی؟ آخر مزید جمہوریت کا سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟ کسی انسانی ساختہ نظام میں اصلاح کے کتنے امکانات ہو سکتے ہیں؟ یہ سوالات اہم ہیں اور ہمیں ان کے جوابات تلاش کرنے چاہئیں، لیکن ان باتوں سے قطع نظر مزید جمہوریت کے تصور میں یہ امر بھی مضمر نظر آتا ہے کہ جمہوریت ایک خود کتنی عمل ہے۔ اسے اپنی اصلاح کے لیے کسی خارجی سہارے یا مدد کی ضرورت نہیں ، وہ ہر اپنی ہر غلطی پہ کوتاہی کا علاج مزید جمہوریت سے خود کر سکتی ہے۔
خود مغرب میں مغربی فکر اور تہذیب پر جو تنقید ہوئی ہے اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ مغربی فکر نے زندگی کے ایک ایک شعبے اور پہلو میں معیار (Quality) کے بجائے مقدار (Quantity) کو اصل اْصول بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں وہاں جمہوریت کو بھی ’’مقداری‘ قرار دیا گیا ہے۔ اقبال نے بھی جمہوریت پر بنیادی اعتراض یہی کیا ہے کہ اس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ اس اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب مقدار اور مزید جمہوریت کا مطلب ’’مزید مقدار‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو معاشرے مقدار کے بجائے ’’معیار‘‘ کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں ان کے لیے مزید جمہوریت کی بات کا مفہوم کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
امریکا میں بھی جمہوریت کے بارے میں جو تنقیدی آرا ان دنوں سامنے آرہی ہیں ان کا ہدف نظام ہے، جمہوریت کا بنیادی تصور نہیں۔ یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ فی نفسہ جمہوریت میں کوئی خامی نہیں۔ خامی ہے تو جمہوری آئیڈیل کی بنیاد پر وضع کیے گئے نظام میں۔ اس رائے میں جیسا کہ ظاہر ہے بنیادی تصور اور بنیادی تصور کی بنیاد پر قائم ہونے والے نظام کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایک صحیح تصور کی بنیاد پر ایک غلط عمارت تعمیر ہو سکتی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بنیادی تصور اور اس کی بنیاد پر قائم کی گئی عمارت میں ایک تعلق ہوتا ہے، چنانچہ اگر عمارت میں کوئی خامی نظر آ رہی ہے تو اس کے بنیادی تصور میں بھی کوئی خامی ہو گی۔ لیکن یہ ایک ایسی بات ہے جس کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تا۔ کیونکہ اسے درست تسلیم کر لیا جائے تو جمہوریت اور مزید جمہوریت کے حوالے سے حماقتیں اور مزید حماقتیں‘‘ کی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
بعض لوگ ایسی گفتگو کے اختتام پر سوال کرتے ہیں کہ بالآخر طے کیا ہوا؟ بات یہ ہے کہ ہر گفتگو کچھ طے کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ جس بچے نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے اس کا ہدف کچھ طے کرنا تو نہیں تھا۔